كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابٌ یَزِفُون : النَّسَلانٌ فِی المَشئیِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِلَحْمٍ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَجْمَعُ يَوْمَ القِيَامَةِ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيُنْفِذُهُمُ البَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ، - فَذَكَرَ حَدِيثَ الشَّفَاعَةِ - فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ: أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنَ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ، فَذَكَرَ [ص:142] كَذَبَاتِهِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى تَابَعَهُ أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : سورۃ صافات میں جو لفظ یزفون وارد ہوا ہے ، اس کے معنی ہیں دوڑ کر چلے
ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ، ان سے ابوحیان نے ، ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک مرتبہ گوشت پیش کیاگیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اولین و آخرین کو ایک ہموار اور وسیع میدان میں جمع کرے گا ، اس طرح کہ پکارنے والا سب کو اپنی بات سناسکے گا اور دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا ( کیوں کہ یہ میدان ہموار ہوگا ، زمین کی طرح گول نہ ہوگا ) اور لوگوں سے سورج بالکل قریب ہوجائے گا ۔ پھر آپ نے شفاعت کا ذکر کیا کہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے کہ آپ روئے زمین پر اللہ کے نبی اور خلیل ہیں ۔ ہمارے لیے اپنے رب کے حضور میں شفاعت کیجئے ، پھر انہیں اپنے جھوٹ ( توریہ ) یاد آجائیں گے اور کہیں گے کہ آج تو مجھے اپنی ہی فکر ہے ۔ تم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاو ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت انس ص نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔
تشریح :
اس حدیث سے جاہل نادان مسلمانوں کی مذمت نکلی جو اپنے مصنوعی اماموں اور پیروں پر بھروسا کئے بیٹھے ہیں۔ کہ قیامت کے دن وہ ان کو بخشوالیں گے۔ مقلدین ائمہ اربعہ میں سے اکثر جہال کا یہی خیال ہے کہ ان کے امام ان کی بخشش کے ذمہ دار ہیں، ایسے ناقص خیالات سے ہر مسلمان کو بچنا بہت ضروری ہے۔
اس حدیث سے جاہل نادان مسلمانوں کی مذمت نکلی جو اپنے مصنوعی اماموں اور پیروں پر بھروسا کئے بیٹھے ہیں۔ کہ قیامت کے دن وہ ان کو بخشوالیں گے۔ مقلدین ائمہ اربعہ میں سے اکثر جہال کا یہی خیال ہے کہ ان کے امام ان کی بخشش کے ذمہ دار ہیں، ایسے ناقص خیالات سے ہر مسلمان کو بچنا بہت ضروری ہے۔