‌صحيح البخاري - حدیث 336

كِتَابُ التَّيَمُّمِ بَابُ إِذَا لَمْ يَجِدْ مَاءً وَلاَ تُرَابًا صحيح حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلاَدَةً فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا فَوَجَدَهَا، «فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلاَةُ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَصَلَّوْا، فَشَكَوْا ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ» فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ لِعَائِشَةَ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ تَكْرَهِينَهُ، إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ ذَلِكِ لَكِ وَلِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ خَيْرًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 336

کتاب: تیمم کے احکام و مسائل باب: جب پانی ملے نہ مٹی تو کیا کرے ہم سے سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، وہ اپنے والد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے حضرت اسماء سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا، وہ گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا، جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت آ پہنچا اور لوگوں کے پاس ( جو ہار کی تلاش میں گئے تھے ) پانی نہیں تھا۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی۔
تشریح : حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: استدل بذلک جماعۃ من المحققین منہم المصنف علی وجوب الصلوٰۃ عندعدم المطہرین الماءوالتراب ولیس فی الحدیث انہم فقدوا التراب وانما فیہ انہم فقدوا الماءفقط ولکن عدم الماءفی ذلک الوقت کعدم الماءوالتراب لانہ لامطہر سواہ ووجہ الاستدلال بہ انہم صلوا معتقدین وجوب ذلک ولوکانت الصلوٰۃ حینئذ ممنوعۃ لا نکرعلیہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہذا قال الشافعی واحمد وجمہور المحدثین۔ ( نیل الاوطار،جزءاول، ص: 267 ) یعنی اہل تحقیق نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ اگرکہیں پانی اور مٹی ہردو نہ ہوں تب بھی نماز واجب ہے۔ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے انھوں نے پانی نہیں پایا تھا پھر بھی نماز کوواجب جان کر ادا کیا، اگران کا یہ نماز پڑھنا منع ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ان پر انکار فرماتے۔ پس یہی حکم اس کے لیے ہے جو نہ پانی پائے نہ مٹی، اس لیے کہ طہارت صرف ان ہی دوچیزوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ تو اس کو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔ جمہور محدثین کا یہی فتویٰ ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: واستدل بہ علی ان فاقدالطہورین یصلی علی حالہ وہووجہ المطابقۃ بین الترجمۃ والحدیث الخ یعنی حدیث مذکورہ دلالت کررہی ہے کہ جوشخص پانی پائے نہ مٹی، وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے۔ حدیث اور ترجمہ میں یہی مطابقت ہے۔ حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: استدل بذلک جماعۃ من المحققین منہم المصنف علی وجوب الصلوٰۃ عندعدم المطہرین الماءوالتراب ولیس فی الحدیث انہم فقدوا التراب وانما فیہ انہم فقدوا الماءفقط ولکن عدم الماءفی ذلک الوقت کعدم الماءوالتراب لانہ لامطہر سواہ ووجہ الاستدلال بہ انہم صلوا معتقدین وجوب ذلک ولوکانت الصلوٰۃ حینئذ ممنوعۃ لا نکرعلیہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہذا قال الشافعی واحمد وجمہور المحدثین۔ ( نیل الاوطار،جزءاول، ص: 267 ) یعنی اہل تحقیق نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ اگرکہیں پانی اور مٹی ہردو نہ ہوں تب بھی نماز واجب ہے۔ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے انھوں نے پانی نہیں پایا تھا پھر بھی نماز کوواجب جان کر ادا کیا، اگران کا یہ نماز پڑھنا منع ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ان پر انکار فرماتے۔ پس یہی حکم اس کے لیے ہے جو نہ پانی پائے نہ مٹی، اس لیے کہ طہارت صرف ان ہی دوچیزوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ تو اس کو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔ جمہور محدثین کا یہی فتویٰ ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: واستدل بہ علی ان فاقدالطہورین یصلی علی حالہ وہووجہ المطابقۃ بین الترجمۃ والحدیث الخ یعنی حدیث مذکورہ دلالت کررہی ہے کہ جوشخص پانی پائے نہ مٹی، وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے۔ حدیث اور ترجمہ میں یہی مطابقت ہے۔