كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ} [هود: 25] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ [ص:141] بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمْ يَكْذِبْ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ إِلَّا ثَلاَثَ كَذَبَاتٍ، ثِنْتَيْنِ مِنْهُنَّ فِي ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَوْلُهُ {إِنِّي سَقِيمٌ} [الصافات: 89]. وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا} [الأنبياء: 63]. وَقَالَ: بَيْنَا هُوَ ذَاتَ يَوْمٍ وَسَارَةُ، إِذْ أَتَى عَلَى جَبَّارٍ مِنَ الجَبَابِرَةِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَا هُنَا رَجُلًا مَعَهُ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ قَالَ: أُخْتِي، فَأَتَى سَارَةَ قَالَ: يَا سَارَةُ: لَيْسَ عَلَى وَجْهِ الأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَيْرِي وَغَيْرَكِ، وَإِنَّ هَذَا سَأَلَنِي فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، فَلاَ تُكَذِّبِينِي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَيْهِ ذَهَبَ يَتَنَاوَلُهَا بِيَدِهِ فَأُخِذَ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتِ اللَّهَ فَأُطْلِقَ، ثُمَّ تَنَاوَلَهَا الثَّانِيَةَ فَأُخِذَ مِثْلَهَا أَوْ أَشَدَّ، فَقَالَ: ادْعِي اللَّهَ لِي وَلاَ أَضُرُّكِ، فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ، فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِهِ، فَقَالَ: إِنَّكُمْ لَمْ تَأْتُونِي بِإِنْسَانٍ، إِنَّمَا أَتَيْتُمُونِي بِشَيْطَانٍ، فَأَخْدَمَهَا هَاجَرَ، فَأَتَتْهُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ: مَهْيَا، قَالَتْ: رَدَّ اللَّهُ كَيْدَ الكَافِرِ، أَوِ الفَاجِرِ، فِي نَحْرِهِ، وَأَخْدَمَ هَاجَرَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ تِلْكَ أُمُّكُمْ يَا بَنِي مَاءِ السَّمَاءِ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : سورۃ نوح میں اللہ کا یہ فرمانا
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا ، دوان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے ۔ ایک تو ان کافرمانا ( بطور توریہ کے ) کہ ” میں بیمار ہوں “ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ” بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے ( بت ) نے کیا ہے “ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہا السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزررہے تھے ۔ بادشاہ کو خبرملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے ۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہ السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں ۔ پھر آپ سارہ علیہ السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری ( دینی اعتبار سے ) بہن ہو ۔ اس لیے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں ۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑلیاگیا ۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کرو ( کہ اس مصیبت سے نجات دے ) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ، چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑدیاگیا ۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اسی طرح پکڑلیاگیا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لیے دعا کرو ، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوں گا ۔ سارہ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیاگیا ۔ اس کے بعداس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلاکر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیںلائے ہو ، یہ تو کوئی سرکش جن ہے ( جاتے ہوئے ) سارہ علیہ السلام کے لیے اس نے ہاجرہ علیہ السلام کو خدمت کے لیے دیا ۔ جب سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے ۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا ( یہ کہا کہ ) فاجر کے فریب کو اسی کے منھ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماءالسماء( اے آسمانی پانی کی اولاد ! یعنی اہل عرب ) تمہاری والدہ یہی ( حضرت ہاجرہ علیہ السلام ) ہیں ۔
تشریح :
روایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تین جھوٹ کا ذکر ہے جو حقیقت میں جھوٹ نہ تھے۔ کیوں کہ لفظ جھوٹ انبیاءعلیہم السلام کی شان سے بہت بعید ہے۔ ایسے جھوٹ کو دوسرے لفظوں میں توریہ کہا جاتا ہے۔ ایک توریہ وہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انی سقیم میںاپنے دکھ کی وجہ سے چلنے سے مجبور ہوں۔ وہ دکھ قوم کے افعال اور حرکات بد دیکھ کر دل کے دکھی ہونے پر اشارہ تھا۔ انبیاءو مصلحین اپنی قوم کی خرابیوں پر دل سے کڑھتے رہتے ہیں۔ آیت کا یہی مطلب ہے۔ اس کو توریہ کرکے لفظ جھوٹ سے تعبیر کیاگیا۔ دوسرا ظاہری جھوٹ جو اس حدیث میں مذکور ہے حضرت سارہ علیہا السلام کو اس ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچانے کے لیے اپنی بہن قرار دینا۔ یہ دینی اعتبار سے تھا۔ دینی اعتبار سے سارے مومن مرد و عورت بھائی بہن ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد یہی تھی۔ تیسرا جھوٹ بتوں کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے بت خانے کو اجاڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور دریافت کرنے پر فرمایا تھا کہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہوگا، بت پرستوں کی حماقت ظاہر کرنے کے لیے یہ طنز کے طور پر فرمایا تھا۔ بطور توریہ اسے بھی جھوٹ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ بہرحال اس حدیث پر بھی منکرین حدیث کا اعتراض محض حماقت ہے۔ اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ روایت میں عربوں کو آسمان سے پانی پینے والی قوم کہاگیا ہے کیوں کہ اہل عرب کا زیادہ تر گزران بارش ہی پر ہے۔ اگرچہ آج کل وہاں کنویں اور نہریں بنائی جارہی ہیں اور یہ سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز آمین۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اس بادشاہ کی بیٹی تھیں جسے اس نے برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کردیا تھا۔
روایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تین جھوٹ کا ذکر ہے جو حقیقت میں جھوٹ نہ تھے۔ کیوں کہ لفظ جھوٹ انبیاءعلیہم السلام کی شان سے بہت بعید ہے۔ ایسے جھوٹ کو دوسرے لفظوں میں توریہ کہا جاتا ہے۔ ایک توریہ وہ ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ساتھ جانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انی سقیم میںاپنے دکھ کی وجہ سے چلنے سے مجبور ہوں۔ وہ دکھ قوم کے افعال اور حرکات بد دیکھ کر دل کے دکھی ہونے پر اشارہ تھا۔ انبیاءو مصلحین اپنی قوم کی خرابیوں پر دل سے کڑھتے رہتے ہیں۔ آیت کا یہی مطلب ہے۔ اس کو توریہ کرکے لفظ جھوٹ سے تعبیر کیاگیا۔ دوسرا ظاہری جھوٹ جو اس حدیث میں مذکور ہے حضرت سارہ علیہا السلام کو اس ظالم بادشاہ کے ظلم سے بچانے کے لیے اپنی بہن قرار دینا۔ یہ دینی اعتبار سے تھا۔ دینی اعتبار سے سارے مومن مرد و عورت بھائی بہن ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مراد یہی تھی۔ تیسرا جھوٹ بتوں کے متعلق قرآن مجید میں وارد ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے بت خانے کو اجاڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور دریافت کرنے پر فرمایا تھا کہ یہ کام اس بڑے بت نے کیا ہوگا، بت پرستوں کی حماقت ظاہر کرنے کے لیے یہ طنز کے طور پر فرمایا تھا۔ بطور توریہ اسے بھی جھوٹ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ بہرحال اس حدیث پر بھی منکرین حدیث کا اعتراض محض حماقت ہے۔ اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔ روایت میں عربوں کو آسمان سے پانی پینے والی قوم کہاگیا ہے کیوں کہ اہل عرب کا زیادہ تر گزران بارش ہی پر ہے۔ اگرچہ آج کل وہاں کنویں اور نہریں بنائی جارہی ہیں اور یہ سعودی حکومت کے کارنامے ہیں۔ ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز آمین۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اس بادشاہ کی بیٹی تھیں جسے اس نے برکت حاصل کرنے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حرم میں داخل کردیا تھا۔