‌صحيح البخاري - حدیث 3356

كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ} [هود: 25] صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ القُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً بِالقَدُّومِ»، حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، وَقَالَ «بِالقَدُومِ مُخَفَّفَةً»، تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، تَابَعَهُ عَجْلاَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3356

کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں باب : سورۃ نوح میں اللہ کا یہ فرمانا ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے مغیرہ بن عبدالرحمن القرشی نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا ۔ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبردی ، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ، پھر یہی حدیث نقل کی لیکن پہلی روایت میں قدوم بہ تشدید دال ہے اور اس میں قدوم بہ تخفیف دال ہے ۔ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں ۔ یعنی بسولہ ( جو بڑھیوں کا ایک مشہور ہتھیار ہوتا ہے اسے بسوہ بھی کہتے ہیں ) شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عبدالرحمن بن اسحاق نے بھی ابوالزناد سے روایت کیا ہے اور عجلان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے روایت کیا ہے ، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ۔
تشریح : اسی عمر میں ان کو ختنے کاحکم آیا، استرہ پاس نہ تھا اس لیے حکم الٰہی کی تعمیل میں خود ہی بسولے سے ختنہ کرلیا۔ ابویعلیٰ کی روایت میں اتنی صراحت ہے۔ بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی اعتراض کیا ہے جو ان کی حماقت کی دلیل ہے۔ جب ایک انسان خود کشی کرسکتا ہے۔ خود اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کاٹ سکتا ہے تو حضرت ابراہیم کا خود بسولے سے ختنہ کرلینا کون سا موجب تعجب ہے۔ اور اسی سال کی عمر میں ختنے پر اعتراض کرنا بھی حماقت ہے جب حکم الٰہی ہوا، اس کی تعمیل کی گئی۔ منکرین حدیث محض عقل سے کورے ہیں۔ تشریح : حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی عمر میں ختنے کا حکم آیا، اس وقت استرہ ان کے پاس نہ تھا۔ تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی صورت میں حکم الٰہی ادا کیا، ابویعلیٰ کی روایت میں اس کی صراحت موجو دہے۔ عبدالرحمن بن اسحاق کی روایت کو مسدد نے اپنی مسند میں اور عجلان کی روایت کو امام احمد نے اور محمد بن عمرو کی روایت کو ابویعلیٰ نے وصل کیا ہے۔ اسی عمر میں ان کو ختنے کاحکم آیا، استرہ پاس نہ تھا اس لیے حکم الٰہی کی تعمیل میں خود ہی بسولے سے ختنہ کرلیا۔ ابویعلیٰ کی روایت میں اتنی صراحت ہے۔ بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی اعتراض کیا ہے جو ان کی حماقت کی دلیل ہے۔ جب ایک انسان خود کشی کرسکتا ہے۔ خود اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کاٹ سکتا ہے تو حضرت ابراہیم کا خود بسولے سے ختنہ کرلینا کون سا موجب تعجب ہے۔ اور اسی سال کی عمر میں ختنے پر اعتراض کرنا بھی حماقت ہے جب حکم الٰہی ہوا، اس کی تعمیل کی گئی۔ منکرین حدیث محض عقل سے کورے ہیں۔ تشریح : حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسی عمر میں ختنے کا حکم آیا، اس وقت استرہ ان کے پاس نہ تھا۔ تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی صورت میں حکم الٰہی ادا کیا، ابویعلیٰ کی روایت میں اس کی صراحت موجو دہے۔ عبدالرحمن بن اسحاق کی روایت کو مسدد نے اپنی مسند میں اور عجلان کی روایت کو امام احمد نے اور محمد بن عمرو کی روایت کو ابویعلیٰ نے وصل کیا ہے۔