كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ بَابُ ذِكْرِ إِدْرِيسَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جَاءَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا [ص:136] قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ، قَالَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا جِبْرِيلُ قَالَ: مَعَكَ أَحَدٌ قَالَ: مَعِي مُحَمَّدٌ، قَالَ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ فَافْتَحْ، فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا إِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ وَهَذِهِ الأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ اليَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الجَنَّةِ، وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ الأَوَّلُ فَفَتَحَ قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ إِدْرِيسَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى، وَإِبْرَاهِيمَ وَلَمْ يُثْبِتْ لِي كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ قَدْ ذَكَرَ: أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّادِسَةِ، وَقَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِإِدْرِيسَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا إِدْرِيسُ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ هَذَا مُوسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَ عِيسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ مَنْ هَذَا، قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَيَّةَ الأَنْصَارِيَّ، كَانَا يَقُولاَنِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثُمَّ عُرِجَ بِي، حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ صَرِيفَ الأَقْلاَمِ»، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ: مُوسَى مَا الَّذِي فَرَضَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَرَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ: فَذَكَرَ مِثْلَهُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَجَعْتُ فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ القَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدِ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ المُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ [ص:137]، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : حضرت ادریس علیہ السلام کا بیان
عبدان نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبردی ، انہیں یونس نے خبردی اور انہیں زہری نے ، ( دوسری سند ) اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا ہم سے عنبسہ نے ، ان سے یونس نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میرے گھر کی چھت کھولی گئی ۔ میرا قیام ان دنوں مکہ میں تھا ۔ پھر جبریل علیہ السلام اترے اور میرا سینہ چاک کیا اور اسے زمزم کے پانی سے دھویا ۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا ، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا ۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر آسمان کی طرف لے کر چلے ، جب آسمان دنیا پر پہنچے تو جبریل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو ، پوچھا کہ کون صاحب ہیں ؟ انہوںنے جواب دیا کہ میں جبریل ، پھر پوچھا کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جواب دیا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، پوچھا کہ انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجاگیا تھا ۔ جواب دیا کہ ہاں ، اب دروازہ کھلا ، جب ہم آسمان پر پہنچے تو وہاں ایک بزرگ سے ملاقات ہوئی ، کچھ انسانی روحیں ان کے دائیں طرف تھیں اور کچھ بائیں طرف ، جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روپڑتے ۔ انہوں نے کہا خوش آمدید ، نیک نبی نیک بیٹے ! میں نے پوچھا ، جبریل ! یہ صاحب کون بزرگ ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیںاور یہ انسانی روحیں ان کے دائیں اور بائیں طرف تھیں ان کی اولاد بنی آدم کی روحیں تھیں ان کے جو دائیں طرف تھیں وہ جنتی تھیں اور جو بائیں طرف تھیں وہ دوزخی تھیں ، اسی لیے جب وہ دائیں طرف دیکھتے تو مسکراتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو روتے تھے ، پھر جبریل علیہ السلام مجھے اوپر لے کر چڑھے اور دوسرے آسمان پر آئے ، اس آسمان کے داروغہ سے بھی انہوں نے کہا کہ دروازہ کھولو ، انہوں نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے جو پہلے آسمان پر ہوچکے تھے ، پھر دروازہ کھولا ، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوذرص نے تفصیل سے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آسمانوں پر ادریس ، موسیٰ عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو پایا ، لیکن انہوںنے ان انبیاءکرام کے مقامات کی کوئی تخصےص نہیں کی ، صرف اتنا کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم علیہ السلام کو آسمان دنیا ( پہلے آسمان پر ) پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب جبریل علیہ السلام ادریس علیہ السلام کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا خوش آمدید ، نیک نبی نیک بھائی ، میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں ، پھر میں عیسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا ، انہوں نے بھی کہا خوش آمدید نیک نبی نیک بھائی ، میں نے پوچھایہ کون صاحب ہیں ؟ تو بتایا کہ عیسیٰ علیہ السلام ۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید نیک نبی اور نیک بیٹے ، میں نے پوچھا یہ کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں ، ابن شہاب سے زہری نے بیان کیا اور مجھے ایوب بن حزم نے خبردی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوحیہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھے اوپر لے کر چڑھے اور میں اتنے بلند مقام پر پہنچ گیا جہاں سے قلم کے لکھنے کی آواز صاف سننے لگی تھی ، ابوبکر بن حزم نے بیان کیا اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے پچاس وقت کی نمازیں مجھ پر فرض کیں ۔ میں اس فرےضہ کے ساتھ واپس ہوا اور جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر کیا چیز فرض کی گئی ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ پچاس وقت کی نمازیں ان پر فرض ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب کے پاس واپس جائیں ، کیوں کہ آپ کی امت میں اتنی نمازوں کی طاقت نہیںہے ، چنانچہ میں واپس ہوا اور رب العالمین کے دربار میں مراجعت کی ، اس کے نتیجے میں اس کا ایک حصہ کم کردیاگیا ، پھر میں موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور اس مرتبہ بھی انہوں نے کہا کہ اپنے رب سے پھر مراجعت کریں پھر انہوں نے اپنی تفصیلات کا ذکر کیا کہ رب العالمین نے ایک حصہ کی پھر کمی کردی ، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اورانہیں خبرکی ، انہوں نے کہا کہ آپ اپنے رب سے مراجعت کریں ، کیوں کہ آپ کی امت میں اس کی بھی طاقت نہیں ہے ، پھر میں واپس ہوا اور اپنے رب سے پھر مراجعت کی ، اللہ تعالیٰ نے اس مرتبہ فرمادیا کہ نمازیں پانچ وقت کی کردی گئیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ہی باقی رکھاگیا ، ہمارا قول بدلا نہیں کرتا ۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے اب بھی اسی پر زور دیا کہ اپنے رب سے آپ کو پھر مراجعت کرنی چاہئے ۔ لیکن میں نے کہا کہ مجھے اللہ پاک سے بار بار درخواست کرتے ہوئے اب شرم آتی ہے ۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے لے کر آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لائے جہاں مختلف قسم کے رنگ نظرآئے ، جنہوں نے اس درخت کو چھپا رکھا تھا میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے ۔ اس کے بعد مجھے جنت میں داخل کیاگیا تو میں نے دیکھا کہ موتی کے گنبد بنے ہوئے ہیں اور اس کی مٹی مشک کی طرح خوشبودار تھی ۔
تشریح :
اس حدیث شریف میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر خیر آیا۔ اسی مناسبت سے اسے یہاں درج کیاگیا۔ معراج کا واقعہ اپنی جگہ پر بیان کیا جائے گا، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
نوٹ: حدیث معراج کا یہ عقیدہ لازماً رکھنا چاہئے کہ معراج جسمانی برحق ہے اور اس میں سینہ چاک ہونے وغیرہ وغیرہ جتنے بھی کوائف مذکور ہوئے ہیں اپنے ظاہری معانی کے لحاظ سے برحق ہیں۔ ظاہر پر ایمان لانا اور دیگر کوائف اللہ کے حوالہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ اس میں مزید کرید کرنا جائز نہیں۔
اس حدیث شریف میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر خیر آیا۔ اسی مناسبت سے اسے یہاں درج کیاگیا۔ معراج کا واقعہ اپنی جگہ پر بیان کیا جائے گا، ان شاءاللہ تعالیٰ۔
نوٹ: حدیث معراج کا یہ عقیدہ لازماً رکھنا چاہئے کہ معراج جسمانی برحق ہے اور اس میں سینہ چاک ہونے وغیرہ وغیرہ جتنے بھی کوائف مذکور ہوئے ہیں اپنے ظاہری معانی کے لحاظ سے برحق ہیں۔ ظاہر پر ایمان لانا اور دیگر کوائف اللہ کے حوالہ کرنا ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ اس میں مزید کرید کرنا جائز نہیں۔