كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} [البقرة: 30] صحيح حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، يَرْفَعُهُ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا: لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ كُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدْ سَأَلْتُكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ، أَنْ لاَ تُشْرِكَ بِي، فَأَبَيْتَ إِلَّا الشِّرْكَ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا ، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں ۔
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا ، کہا ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، ان سے ابوعمران جونی نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اللہ تعالیٰ ( قیامت کے دن ) اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب کیاگیا ہوگا ۔ اگر دنیا میں تمہاری کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اس عذاب سے نجات پانے کے لیے اسے بدلے میں دے سکتا تھا ؟ وہ شخص کہے گا کہ جی ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا ( روز ازل میں ) کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا ، لیکن ( جب تو دنیا میں آیا تو ) اسی شرک کا عمل اختیارکیا ۔
تشریح :
جملہ انبیاءو رسل علیہم السلام کا اولین پیغام یہی رہا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، تمام آسمانی کتابیں اس مسئلہ پر اتفاق کامل رکھتی ہیں۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں شرک کی تردید بڑے واضح اور مدلل الفاظ میں موجود ہے۔ جن کو نقل کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوجائے گا۔ مگر صدافسوس کہ دوسری امتوں کی طرح بہت سے نادان مسلمانوں کو بھی شیطان نے گمراہ کرکے شرک میں گرفتار کردیا۔ عقیدت ومحبت بزرگوں کے نام سے ان کو دھوکا دیا اور وہ بھی مشرکین مکہ کی طرح یہی کہنے لگے۔ مانعبدھم الا ليقربوانا الي اللہ زلفي ( الزمر: 3 ) ہم ان بزرگان کو صرف اسی لیے مانتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کے نزدیک پہنچادیں، یہ ہمارے وسیلے ہیں جن کے پوجنے سے خدا ملتا ہے۔ یہ شیطان کا وہ فریب ہے جو ہمیشہ مشرک قوموں کے لیے ضلالت و گمراہی کا سبب بنا ہے۔ آج بہت سے بزرگوں کے مزاروں پر نادان مسلمان وہ سب حرکتیں کرتے ہیں جو ایک بت پرست بت کے سامنے کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں، امداد کے لیے ان کی دہائی دیتے ہیں۔ یاغوث یا علی وغیرہ ان کے وظائف بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک قرآن اور سنت کی تشریحات ہیں ایسے لوگ کھلے شرک کے مرتکب ہیں اور مشرکین کے لیے اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے۔ عقیدہ توحید جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہرگز ان خرافات کے لیے درجہ جواز نہیں دیتا۔ اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔ آمین۔
جملہ انبیاءو رسل علیہم السلام کا اولین پیغام یہی رہا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، تمام آسمانی کتابیں اس مسئلہ پر اتفاق کامل رکھتی ہیں۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات میں شرک کی تردید بڑے واضح اور مدلل الفاظ میں موجود ہے۔ جن کو نقل کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوجائے گا۔ مگر صدافسوس کہ دوسری امتوں کی طرح بہت سے نادان مسلمانوں کو بھی شیطان نے گمراہ کرکے شرک میں گرفتار کردیا۔ عقیدت ومحبت بزرگوں کے نام سے ان کو دھوکا دیا اور وہ بھی مشرکین مکہ کی طرح یہی کہنے لگے۔ مانعبدھم الا ليقربوانا الي اللہ زلفي ( الزمر: 3 ) ہم ان بزرگان کو صرف اسی لیے مانتے ہیں کہ یہ ہم کو خدا کے نزدیک پہنچادیں، یہ ہمارے وسیلے ہیں جن کے پوجنے سے خدا ملتا ہے۔ یہ شیطان کا وہ فریب ہے جو ہمیشہ مشرک قوموں کے لیے ضلالت و گمراہی کا سبب بنا ہے۔ آج بہت سے بزرگوں کے مزاروں پر نادان مسلمان وہ سب حرکتیں کرتے ہیں جو ایک بت پرست بت کے سامنے کرتا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے ان کا نام لیتے ہیں، امداد کے لیے ان کی دہائی دیتے ہیں۔ یاغوث یا علی وغیرہ ان کے وظائف بنے ہوئے ہیں۔ جہاں تک قرآن اور سنت کی تشریحات ہیں ایسے لوگ کھلے شرک کے مرتکب ہیں اور مشرکین کے لیے اللہ نے جنت کو حرام کردیا ہے۔ عقیدہ توحید جو اسلام نے پیش کیا ہے وہ ہرگز ان خرافات کے لیے درجہ جواز نہیں دیتا۔ اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو ہدایت بخشے۔ آمین۔