كِتَابُ أَحَادِيثِ الأَنْبِيَاءِ وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} [البقرة: 30] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، أَخْبَرَنَا الفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلاَمٍ مَقْدَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلاَثٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ؟ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «خَبَّرَنِي بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِيلُ» قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَاكَ عَدُوُّ اليَهُودِ مِنَ المَلاَئِكَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ المَشْرِقِ إِلَى المَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الوَلَدِ: فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ المَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ، وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اليَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلاَمِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِي عِنْدَكَ، فَجَاءَتِ اليَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ البَيْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلاَمٍ» قَالُوا أَعْلَمُنَا، وَابْنُ أَعْلَمِنَا، وَأَخْيَرُنَا، وَابْنُ أَخْيَرِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ» قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: شَرُّنَا، وَابْنُ شَرِّنَا، وَوَقَعُوا فِيهِ
کتاب: انبیاء ؑ کے بیان میں
باب : اللہ تعالیٰ کا سورۃ بقرہ میں یہ فرمانا ، اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک ( قوم کو ) جانشین بنانے والا ہوں ۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی ۔ انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبرملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا ۔ جنہیںنبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے ؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا ؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آکر اس کی خبردی ہے ۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی ، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا ، وہ مچھلی کی کلیجی پرجو ٹکڑالٹکا رہتا ہے وہ ہوگا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کرجاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ۔ اگر عورت کی منی پہل کرجاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( یہ سن کر ) حضرت عبداللہ بن سلامص بول اٹھے ” میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ “ پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے ۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہوگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کردیں گے ۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں ؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں ۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہوگا ؟ انہوں نے کہا ، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے ۔ اتنے میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے ، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے ۔
تشریح :
حضرت عبداللہ بن سلام یہود کے بڑے عالم تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر فوراً ہی صداقت محمدی کے قائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ یہ جو بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار سوال کئے تھے، یہ غلط ہے اسی طرح ہزار مسئلہ کا رسالہ بھی مصنوعی ہے۔ تعجب ہے کہ مسلمان ایسے جھوٹے رسالوں کو پڑھیں اورحدیث کی صحیح کتابیں نہ دیکھیں۔ اسی طرح صبح کا ستارہ، وقائق الاخبار اور منبہات اور دلائل الخیرات کی اکثر روایتیں موضوع ہیں۔
آگ سے متعلق ایک روایت یوں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کرے۔ یہ روایت صحیح مسلم اور حاکم میں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ آگ ہمارے زمانے654ھ میں مدینہ میں ظاہر ہوئی اور آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی پہلو سے لے کر پہاڑی تک پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال شام اور تمام شہروں میں بتواتر معلوم ہوا اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔ ابوشامہ ایک معاصر مصنف کا بیان ہے کہ ہمارے پاس مدینہ سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ چہار شنبہ کی رات کو3جمادی الثانی میں مدینہ میں ایک سخت دھماکہ ہوا، پھر بڑا زلزلہ آیا جو ساعت بہ ساعت بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ پانچویں تاریخ کو بہت بڑی آگ پہاڑی میں قرےظہ کے محلہ کے قریب نمودار ہوئی، جس کو ہم مدینہ کے اندر اپنے گھروں سے اس طرح دیکھتے تھے کہ گویا وہ ہمارے قریب ہی ہے۔ ہم اسے دیکھنے کو چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑ آگ بن کر بہہ رہے ہیں اور ادھر ادھر شعلے بن کر جارہے ہیں۔ آگ کے شعلے پہاڑ معلوم ہورہے تھے۔ محلوں کے برابر چنگاریاں اڑرہی تھیں۔ یہاں تک کہ یہ آگ مکہ مکرمہ اور صحرا سے بھی نظرآتی تھی، یہ حالت ایک ماہ سے زیادہ رہی ( تاریخ الخلفاءبحوالہ ابوشامہ واقعات654ھ )
علامہ ذہبی نے بھی اس آگ کا ذکر کیا ہے ( مختصر تاریخ الاسلام ذہبی، جلد: 2ص: 121 حیدرآباد ) حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں سے جو بصریٰ میں اس وقت موجود تھے یہ شہادت منقول ہے کہ انہوں نے رات کو اس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں دیکھیں۔ ( تاریخ الخلفاءسیوطی654ھ خلاصہ از سیرت النبی، جلد: 3ص: 712 )
حضرت عبداللہ بن سلام یہود کے بڑے عالم تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر فوراً ہی صداقت محمدی کے قائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ یہ جو بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزار سوال کئے تھے، یہ غلط ہے اسی طرح ہزار مسئلہ کا رسالہ بھی مصنوعی ہے۔ تعجب ہے کہ مسلمان ایسے جھوٹے رسالوں کو پڑھیں اورحدیث کی صحیح کتابیں نہ دیکھیں۔ اسی طرح صبح کا ستارہ، وقائق الاخبار اور منبہات اور دلائل الخیرات کی اکثر روایتیں موضوع ہیں۔
آگ سے متعلق ایک روایت یوں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کرے۔ یہ روایت صحیح مسلم اور حاکم میں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ آگ ہمارے زمانے654ھ میں مدینہ میں ظاہر ہوئی اور آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی پہلو سے لے کر پہاڑی تک پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال شام اور تمام شہروں میں بتواتر معلوم ہوا اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔ ابوشامہ ایک معاصر مصنف کا بیان ہے کہ ہمارے پاس مدینہ سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ چہار شنبہ کی رات کو3جمادی الثانی میں مدینہ میں ایک سخت دھماکہ ہوا، پھر بڑا زلزلہ آیا جو ساعت بہ ساعت بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ پانچویں تاریخ کو بہت بڑی آگ پہاڑی میں قرےظہ کے محلہ کے قریب نمودار ہوئی، جس کو ہم مدینہ کے اندر اپنے گھروں سے اس طرح دیکھتے تھے کہ گویا وہ ہمارے قریب ہی ہے۔ ہم اسے دیکھنے کو چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑ آگ بن کر بہہ رہے ہیں اور ادھر ادھر شعلے بن کر جارہے ہیں۔ آگ کے شعلے پہاڑ معلوم ہورہے تھے۔ محلوں کے برابر چنگاریاں اڑرہی تھیں۔ یہاں تک کہ یہ آگ مکہ مکرمہ اور صحرا سے بھی نظرآتی تھی، یہ حالت ایک ماہ سے زیادہ رہی ( تاریخ الخلفاءبحوالہ ابوشامہ واقعات654ھ )
علامہ ذہبی نے بھی اس آگ کا ذکر کیا ہے ( مختصر تاریخ الاسلام ذہبی، جلد: 2ص: 121 حیدرآباد ) حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں سے جو بصریٰ میں اس وقت موجود تھے یہ شہادت منقول ہے کہ انہوں نے رات کو اس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں دیکھیں۔ ( تاریخ الخلفاءسیوطی654ھ خلاصہ از سیرت النبی، جلد: 3ص: 712 )