‌صحيح البخاري - حدیث 3319

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابٌ: خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ، يُقْتَلْنَ فِي الحَرَمِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَزَلَ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَاءِ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَلَدَغَتْهُ نَمْلَةٌ، فَأَمَرَ بِجَهَازِهِ فَأُخْرِجَ مِنْ تَحْتِهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِبَيْتِهَا فَأُحْرِقَ بِالنَّارِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ: فَهَلَّا نَمْلَةً وَاحِدَةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3319

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : پانچ بہت ہی برے (انسان کو تکلیف دینے والے) جانور ہیں ، جن کو حرم میں بھی مارڈالنا درست ہے۔ ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا ، ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، گروہ انبیاءمیں سے ایک نبی ایک درخت کے سائے میں اترے ، وہاں انہیں کسی ایک چیونٹی نے کاٹ لیا ۔ تو انہوں نے حکم دیا ، ان کا سارا سامان درخت کے تلے سے اٹھالیاگیا ۔ پھر چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوادیا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا ، فقط اسی کو جلانا تھا ۔
تشریح : غلط ترجمہ کا ایک نمونہ: بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہمارے معزز علماءکرام بخاری شریف کے تراجم کئی عدد نکال رہے ہیں۔ مگر ان کے تراجم اور تشریحات میں لفظی اور معنوی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جگہ حدیث کا مفہوم کچھ ہوتا ہے اور یہ حضرات اس کے برعکس ترجمہ کرجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں بھی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ فامر بجہازہ فاخرج من تحتہا کا ترجمہ تفہیم البخاری ( دیوبندی ) میں یوں کیاگیا ہے: ” تو انہوں نے اس کے چھتے کو درخت کے نیچے سے نکالنے کا حکم دیا۔ وہ نکالا گیا “۔ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے، صحیح وہ ہے جو ہم نے کیا ہے، جیسا کہ اہل علم پر روشن ہے۔ غلط ترجمہ کا ایک نمونہ: بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل ہمارے معزز علماءکرام بخاری شریف کے تراجم کئی عدد نکال رہے ہیں۔ مگر ان کے تراجم اور تشریحات میں لفظی اور معنوی بہت سی غلطیاں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جگہ حدیث کا مفہوم کچھ ہوتا ہے اور یہ حضرات اس کے برعکس ترجمہ کرجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہاں بھی موجود ہے۔ حدیث کے الفاظ فامر بجہازہ فاخرج من تحتہا کا ترجمہ تفہیم البخاری ( دیوبندی ) میں یوں کیاگیا ہے: ” تو انہوں نے اس کے چھتے کو درخت کے نیچے سے نکالنے کا حکم دیا۔ وہ نکالا گیا “۔ یہ ترجمہ بالکل غلط ہے، صحیح وہ ہے جو ہم نے کیا ہے، جیسا کہ اہل علم پر روشن ہے۔