كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ صحيح حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ ثُمَّ قُمْتُ فَانْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِي لِيَقْلِبَنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ» فَقَالاَ سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا سُوءًا، أَوْ قَالَ: شَيْئًا
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
باب : ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، کہا ہم کو معمر نے خبردی ، انہیں زہری نے ، انہیں زین العابدین علی بن حسین ص نے اور ان سے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے ( مسجد میں ) آئی ، میں آپ سے باتیں کرتی رہی ، پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ بھی مجھے چھوڑ آنے کے لیے کھڑے ہوئے ۔ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے مکان ہی میں تھا ۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ ( اسید بن حضیر ، عبادہ بن بشیر ) گزرے ۔ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو تیز چلنے لگے ۔ آپ نے ان سے فرمایا ، ذرا ٹھہرجاو یہ صفیہ بنت حیی ہیں ۔ ان دونوں صحابہ نے عرض کیا ، سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ( کیا ہم بھی آپ کے بارے میں کوئی شبہ کرسکتے ہیں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے ۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ نہ ڈال دے ، یا آپ نے ( لفظ سوءکی جگہ ) لفظ شےئا فرمایا ۔ معنی ایک ہی ہیں ۔
تشریح :
معلوم ہوا کہ انسان کو کسی کے لیے ذرا بھی شبہ پیدا کرنے کا موقع نہ دینا چاہئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا، اور ان کو غلط وسوسہ سے بچالیا۔
معلوم ہوا کہ انسان کو کسی کے لیے ذرا بھی شبہ پیدا کرنے کا موقع نہ دینا چاہئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا، اور ان کو غلط وسوسہ سے بچالیا۔