كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خَلَقَ كَذَا، مَنْ خَلَقَ كَذَا، حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
باب : ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، ان سے عقیل نے ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، انہیں عروہ نے خبردی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم میں سے کسی کے پاس شیطان آتا ہے اور تمہارے دل میں پہلے تو یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ فلاں چیز کس نے پیدا کی ، فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ اور آخر میں بات یہاں تک پہنچاتا ہے کہ خود تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا ؟ جب کسی شخص کو ایسا وسوسہ ڈالے تو اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے ، شیطانی خیال کو چھوڑ دے ۔
تشریح :
شیطان یہ وسوسہ اس طرح ڈالتا ہے کہ دنیا میں سب چیزیں علل اور معلولات اور اسباب اور مسببات ہیں یعنی ایک چیز سے دوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ چیز دوسری سے مثلاً بیٹا باپ سے باپ دادا سے، دادا پر دادا سے، اخیر میں انتہا خدا تک ہوتی ہے۔ تو شیطان یہ کہتا ہے پھر خدا کی بھی کوئی علت ہوگی، اس مردود کا جواب اعوذ باللہ پڑھنا ہے۔ اگر خواہ مخواہ عقلی جواب ہی مانگے تو جواب یہ ہے کہ اگر ازل میں برابر علل اور معلولات کا سلسلہ چلا جائے اور کسی علت پر ختم نہ ہو تو پھر لازم آتا ہے کہ مابالعرض بغیر ما بالذات کے موجود ہو اور یہ محال ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اس سلسلہ کی انتہا ایک ایسی ذات مقدس پر ہے جو علت محضہ ہے اور وہ کسی کی معلول نہیں اور وہ موجود بالذات ہے اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہیں۔ وہی ذات مقدس خدا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے عقلی ڈھکوسلوں میں نہ پڑے اور اعوذ باللہ پڑھ کر اپنے مالک حقیقی سے مدد چاہے۔ وہ شیطان کا وسوسہ دور کردے گا جیسے اس نے خود فرمایا ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطان یعنی اے شیطان! میرے خاص بندوں پر تیری کوئی دلیل نہیں چل سکے گی۔ صدق اللہ تبارک و تعالیٰ
شیطان یہ وسوسہ اس طرح ڈالتا ہے کہ دنیا میں سب چیزیں علل اور معلولات اور اسباب اور مسببات ہیں یعنی ایک چیز سے دوسری چیز پیدا ہوتی ہے وہ چیز دوسری سے مثلاً بیٹا باپ سے باپ دادا سے، دادا پر دادا سے، اخیر میں انتہا خدا تک ہوتی ہے۔ تو شیطان یہ کہتا ہے پھر خدا کی بھی کوئی علت ہوگی، اس مردود کا جواب اعوذ باللہ پڑھنا ہے۔ اگر خواہ مخواہ عقلی جواب ہی مانگے تو جواب یہ ہے کہ اگر ازل میں برابر علل اور معلولات کا سلسلہ چلا جائے اور کسی علت پر ختم نہ ہو تو پھر لازم آتا ہے کہ مابالعرض بغیر ما بالذات کے موجود ہو اور یہ محال ہے۔
پس معلوم ہوا کہ اس سلسلہ کی انتہا ایک ایسی ذات مقدس پر ہے جو علت محضہ ہے اور وہ کسی کی معلول نہیں اور وہ موجود بالذات ہے اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہیں۔ وہی ذات مقدس خدا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ایسے عقلی ڈھکوسلوں میں نہ پڑے اور اعوذ باللہ پڑھ کر اپنے مالک حقیقی سے مدد چاہے۔ وہ شیطان کا وسوسہ دور کردے گا جیسے اس نے خود فرمایا ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطان یعنی اے شیطان! میرے خاص بندوں پر تیری کوئی دلیل نہیں چل سکے گی۔ صدق اللہ تبارک و تعالیٰ