‌صحيح البخاري - حدیث 3268

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ اللَّيْثُ: كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ أَنَّهُ سَمِعَهُ وَوَعَاهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشةَ قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ دَعَا وَدَعَا، ثُمَّ قَالَ: أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا فِيهِ شِفَائِي، أَتَانِي رَجُلاَنِ: فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ، قَالَ: فِيمَا ذَا، قَالَ: فِي مُشُطٍ وَمُشَاقَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ، قَالَ فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ فَخَرَجَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لِعَائِشَةَ حِينَ رَجَعَ: «نَخْلُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ» فَقُلْتُ اسْتَخْرَجْتَهُ؟ فَقَالَ: «لاَ، أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ، وَخَشِيتُ أَنْ يُثِيرَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا» ثُمَّ دُفِنَتِ البِئْرُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3268

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔ ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبردی ، انہیں ہشام نے ، انہیں ان کے والد عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ( جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے لوٹے تھے ) جادو ہوا تھا ۔ اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھے ہشام نے لکھا تھا ، انہوں نے اپنے والد سے سنا تھا اور یاد رکھا تھا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیاگیا تھا ۔ آپ کے ذہن میں بات ہوتی تھی کہ فلاںکام میں کررہا ہوں حالانکہ آپ اسے نہ کررہے ہوتے ۔ آخر ایک دن آپ نے دعا کی پھر دعا کی کہ اللہ پاک اس جادو کا اثر دفع کرے ۔ اس کے بعد آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہوا اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ تدبیر بتادی ہے جس میں میری شفا مقدر ہے ۔ میرے پاس دو آدمی آئے ، ایک تو میرے سر کی طرف بیٹھ گئے اور دوسرا پاوں کی طرف ۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا ، انہیں بیماری کیا ہے ؟ دوسرے آدمی نے جواب دیا کہ ان پر جادو ہوا ہے ۔ انہوں نے پوچھا ، جادو ان پر کس نے کیا ہے ؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے ، پوچھا کہ وہ جادو ( ٹونا ) رکھا کس چیز میں ہے ؟ کہا کہ کنگھے میں ، کتان میں اور کھجور کے خشک خوشے کے غلاف میں ۔ پوچھا ، اور یہ چیزیں ہیں کہاں ؟ کہا بئر ذوران میں ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور واپس آئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ، وہاں کے کھجور کے درخت ایسے ہیں جیسے شیطان کی کھوپڑی ۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، وہ ٹونا آپ نے نکلوایا بھی ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے خود شفا دی اور میں نے اسے اس خیال سے نہیں نکلوایا کہ کہیں اس کی وجہ سے لوگوں میں کوئی جھگڑا کھڑا کردوں ۔ اس کے بعد وہ کنواں پاٹ دیاگیا ۔
تشریح : ایک روایت میں ہے کہ اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عورتوں سے صحبت کررہے ہیں۔ حالانکہ نہیں۔ غرض اس سحر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خیالات پر ہوا۔ باقی وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوسکا۔ اتنا سا جو اثر ہوا اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ مصلحت تھی۔ مدینہ میں بنی زریق کے باغ میں ایک کنواں تھا۔ اس کا نام بئرذروان تھا۔ اگر آپ اس جادو کو نکلوالتے تو سب میں یہ خبر اڑجاتی تو مسلمان لوگ اس یہودی مردود کو مارڈالتے، معلوم نہیں کیا کیا فسادات کھڑے ہوجاتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو نکلواکر دیکھا لیکن اس کے کھلوانے کا منتر نہیں کرایا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مورت موم سے بناکر اس میں سوئیاں گاڑ دی تھیں اور تانت میں گیارہ گرہیں دی تھیں۔ اللہ نے معوذتین کی سورتیں اتاریں، آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تو ایک ایک گرہ کھلتی جاتی۔ اسی طرح جب اس مورت میں سے سوئی نکالتے تو اس کو تکلیف ہوتی، اس کے بعد آرام ہوجاتا۔ ( وحیدی ) ہردو روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اس وقت آپ نے اسے نہیں نکلوایا، بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عورتوں سے صحبت کررہے ہیں۔ حالانکہ نہیں۔ غرض اس سحر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض خیالات پر ہوا۔ باقی وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوسکا۔ اتنا سا جو اثر ہوا اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ مصلحت تھی۔ مدینہ میں بنی زریق کے باغ میں ایک کنواں تھا۔ اس کا نام بئرذروان تھا۔ اگر آپ اس جادو کو نکلوالتے تو سب میں یہ خبر اڑجاتی تو مسلمان لوگ اس یہودی مردود کو مارڈالتے، معلوم نہیں کیا کیا فسادات کھڑے ہوجاتے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو نکلواکر دیکھا لیکن اس کے کھلوانے کا منتر نہیں کرایا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مورت موم سے بناکر اس میں سوئیاں گاڑ دی تھیں اور تانت میں گیارہ گرہیں دی تھیں۔ اللہ نے معوذتین کی سورتیں اتاریں، آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تو ایک ایک گرہ کھلتی جاتی۔ اسی طرح جب اس مورت میں سے سوئی نکالتے تو اس کو تکلیف ہوتی، اس کے بعد آرام ہوجاتا۔ ( وحیدی ) ہردو روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اس وقت آپ نے اسے نہیں نکلوایا، بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایا۔