‌صحيح البخاري - حدیث 3260

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ صِفَةِ النَّارِ، وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا فَقَالَتْ: رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ: نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3260

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے، وہ موجود ہے۔ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہ ہم کو شعیب نے خبردی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جہنم نے اپنے رب کے حضور میں شکایت کی اور کہا کہ میرے رب ! میرے ہی بعض حصے نے بعض کو کھالیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانسوں کی اجازت دی ، ایک سانس جاڑے میں اور ایک گرمی میں ۔ تم انتہائی گرمی اور انتہائی سردی جو ان موسموں میں دیکھتے ہو ، اس کا یہی سبب ہے ۔
تشریح : یہ اسباب باطنی ہیں۔ جن کو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسی طرح تسلیم کرلینا اور مزید کرید نہ کرنا ہی اہل ایمان کے لیے ضروری ہے جو لوگ امور باطن کو اپنی محدود عقل کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں، ان کو سوائے خسران اور خرابی ایمان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ منکرین حدیث نے اپنی کور باطنی کی بنا پر ایسی احادیث کو خصوصیت سے نشانہ تنقید بنایا ہے وہ اتنا نہیں سمجھ پاتے کہ ایسے استعارات خود قرآن کریم میں بھی بہت جگہ استعمال کئے گئے ہیں جیسے ارشاد ہے ان من شي الا ےسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحہم ( بنی اسرائیل: 44 ) یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے مگر تم ان کی کیفیت نہیں سمجھ سکتے۔ یا جیسے آیت یوم نقول لجہنم ہل امتلات و تقول ہل من مزید ( ق: 30 ) میں نار دوزخ کا کلام کرنا مذکور ہے۔ منکرین حدیث جو محض قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ایسے قرآنی استعارات کے بارے میں کیا تنقید کریں گے۔ ثابت ہوا کہ عالم برزخ باطنی، عالم آخرت، عالم دوزخ، عالم جنت ان سب کے لیے جو جو کوائف جن جن لفظوں میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کو ان کے ظاہری معانی کی حد تک تسلیم کرکے آگے زبان بند کرنا ایمان والوں کی شان ہے یہی لوگ راسخین فی العلم اور یہی لوگ عنداللہ سمجھ دار ہیں۔ جعلنا اللہ منھم۔ آمین یہ اسباب باطنی ہیں۔ جن کو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسی طرح تسلیم کرلینا اور مزید کرید نہ کرنا ہی اہل ایمان کے لیے ضروری ہے جو لوگ امور باطن کو اپنی محدود عقل کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں، ان کو سوائے خسران اور خرابی ایمان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ منکرین حدیث نے اپنی کور باطنی کی بنا پر ایسی احادیث کو خصوصیت سے نشانہ تنقید بنایا ہے وہ اتنا نہیں سمجھ پاتے کہ ایسے استعارات خود قرآن کریم میں بھی بہت جگہ استعمال کئے گئے ہیں جیسے ارشاد ہے ان من شي الا ےسبح بحمدہ و لکن لا تفقہون تسبیحہم ( بنی اسرائیل: 44 ) یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے مگر تم ان کی کیفیت نہیں سمجھ سکتے۔ یا جیسے آیت یوم نقول لجہنم ہل امتلات و تقول ہل من مزید ( ق: 30 ) میں نار دوزخ کا کلام کرنا مذکور ہے۔ منکرین حدیث جو محض قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ایسے قرآنی استعارات کے بارے میں کیا تنقید کریں گے۔ ثابت ہوا کہ عالم برزخ باطنی، عالم آخرت، عالم دوزخ، عالم جنت ان سب کے لیے جو جو کوائف جن جن لفظوں میں قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں ان کو ان کے ظاہری معانی کی حد تک تسلیم کرکے آگے زبان بند کرنا ایمان والوں کی شان ہے یہی لوگ راسخین فی العلم اور یہی لوگ عنداللہ سمجھ دار ہیں۔ جعلنا اللہ منھم۔ آمین