‌صحيح البخاري - حدیث 3242

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ قَالَ: بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا القَصْرُ؟ فَقَالُوا: لِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ فَذَكَرْتُ غَيْرَتَهُ فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا، فَبَكَى عُمَرُ وَقَالَ: أَعَلَيْكَ أَغَارُ يَا رَسُولَ اللَّهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3242

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہوچکی ہے۔ ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے خواب میں جنت دیکھی ، میں نے اس میں ایک عورت کو دیکھا جو ایک محل کے کنارے وضو کر رہی تھی ۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے ؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا محل ہے ۔ مجھے ان کی غیرت یاد آئی اور میں وہاں سے فوراً لوٹ آیا ۔ یہ سن کر عمرص رو دئیے اور کہنے لگے ، یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کے ساتھ بھی غیرت کروں گا ؟
تشریح : ان جملہ احادیث کو یہاں لانے سے حضرت امام کا مقصد جنت اور اس کی نعمتوں کا ثابت کرنا ہے نیز یہ بھی کہ جنت محض کوئی خواب و خیال کی چیز نہیں ہے بلکہ وہ ایک ثابت اور برحق چیز ہے جس کو اللہ پاک پیدا کرچکا ہے اور اس کی ساری مذکورہ نعمتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت امام نے ان مختلف نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے جنت کے مختلف کوائف پر استدلال فرمایا ہے۔ جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود جنت کے بارے میں کسی شیطانی وسوسہ میں گرفتار ہوں، ان کو فوراً توبہ کرکے اللہ اور رسول کی فرمودہ باتوں پر ایمان ویقین رکھنا چاہئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہشت موجود ہے، پیدا ہوچکی ہے۔ وہاں ہر ایک جنتی کے مکانات اور سامان وغیرہ سب تیار ہیں۔ حضرت عمرص کا قطعی جنتی ہونا بھی اس حدیث سے اور بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوا۔ حضرت عمرص خوشی کے مارے رو دئیے اور یہ جو کہا کہ کیا میں آپ پر غیرت کروں گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تو میرے بزرگ ہیں۔ میرے مربی ہیں۔ میری بیویاں سب آپ کی لونڈیاں ہیں۔ غیرت تو برابر والے سے ہوتی ہے نہ کہ مالک اور مربی سے۔ ان جملہ احادیث کو یہاں لانے سے حضرت امام کا مقصد جنت اور اس کی نعمتوں کا ثابت کرنا ہے نیز یہ بھی کہ جنت محض کوئی خواب و خیال کی چیز نہیں ہے بلکہ وہ ایک ثابت اور برحق چیز ہے جس کو اللہ پاک پیدا کرچکا ہے اور اس کی ساری مذکورہ نعمتیں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ اس سلسلہ میں حضرت امام نے ان مختلف نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے جنت کے مختلف کوائف پر استدلال فرمایا ہے۔ جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود جنت کے بارے میں کسی شیطانی وسوسہ میں گرفتار ہوں، ان کو فوراً توبہ کرکے اللہ اور رسول کی فرمودہ باتوں پر ایمان ویقین رکھنا چاہئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بہشت موجود ہے، پیدا ہوچکی ہے۔ وہاں ہر ایک جنتی کے مکانات اور سامان وغیرہ سب تیار ہیں۔ حضرت عمرص کا قطعی جنتی ہونا بھی اس حدیث سے اور بہت سی حدیثوں سے ثابت ہوا۔ حضرت عمرص خوشی کے مارے رو دئیے اور یہ جو کہا کہ کیا میں آپ پر غیرت کروں گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ تو میرے بزرگ ہیں۔ میرے مربی ہیں۔ میری بیویاں سب آپ کی لونڈیاں ہیں۔ غیرت تو برابر والے سے ہوتی ہے نہ کہ مالک اور مربی سے۔