‌صحيح البخاري - حدیث 3222

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَالَ لِي جِبْرِيلُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ، أَوْ لَمْ يَدْخُلِ النَّارَ»، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟ قَالَ: «وَإِنْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3222

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : فرشتوں کا بیان۔ ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے ، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جبرئیل علیہ السلام کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو آدمی اس حالت میں مرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا ہوگا ، تو وہ جنت میں داخل ہوگا یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) جہنم میں داخل نہیں ہوگا ۔ خواہ اس نے اپنی زندگی میں زنا کیا ہو ، خواہ چوری کی ہو ، اور خواہ زنا اور چوری کرتا ہو ۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک چاہے گا تو ان کو معاف کردے گا اور اگر چاہے گا تو ان کو گناہوں کی سزا دے کر بعد میں جنت میں داخل کردے گا۔ بشرطیکہ وہ دنیا میں کبھی شرک کے مرتکب نہ ہوئے ہوں کیوں کہ مشرک کے لیے اللہ نے جنت کو قطعاً حرام کردیا ہے۔ وہ نام نہاد مسلمان غور کریں جو بزرگوں کے مزارات پر جاکر شرکیہ افعال کا ارتکاب کرتے ہیں، قبروں پر سجدہ اور طواف کرتے ہیں۔ ان کے مشترک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، ایسے لوگ ہرگز جنت میں نہ جائیں گے خواہ کتنے ہی نیک کام کرتے ہوں، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خود فرمادیا ہے۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین ( الزمر: 65 ) ” اے رسول! اگر آپ بھی شرک کربیٹھیں تو آپ کی ساری نیکیاں برباد ہوجائیں گی اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے “ کرمانی نے کہا کہ روایت میں ایسے گنہگاروں کے دوزخ میں نہ داخل ہونے سے مراد ان کا ہمیشگی کا دخول مراد ہے۔ ویجب التاویل بمثلہ جمعابین الایات و الاحادیث ( کرمانی ) مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک چاہے گا تو ان کو معاف کردے گا اور اگر چاہے گا تو ان کو گناہوں کی سزا دے کر بعد میں جنت میں داخل کردے گا۔ بشرطیکہ وہ دنیا میں کبھی شرک کے مرتکب نہ ہوئے ہوں کیوں کہ مشرک کے لیے اللہ نے جنت کو قطعاً حرام کردیا ہے۔ وہ نام نہاد مسلمان غور کریں جو بزرگوں کے مزارات پر جاکر شرکیہ افعال کا ارتکاب کرتے ہیں، قبروں پر سجدہ اور طواف کرتے ہیں۔ ان کے مشترک ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، ایسے لوگ ہرگز جنت میں نہ جائیں گے خواہ کتنے ہی نیک کام کرتے ہوں، اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خود فرمادیا ہے۔ لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین ( الزمر: 65 ) ” اے رسول! اگر آپ بھی شرک کربیٹھیں تو آپ کی ساری نیکیاں برباد ہوجائیں گی اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے “ کرمانی نے کہا کہ روایت میں ایسے گنہگاروں کے دوزخ میں نہ داخل ہونے سے مراد ان کا ہمیشگی کا دخول مراد ہے۔ ویجب التاویل بمثلہ جمعابین الایات و الاحادیث ( کرمانی )