كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ العَزِيزِ أَخَّرَ العَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ قَدْ نَزَلَ فَصَلَّى أَمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ قَالَ: سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ» يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
باب : فرشتوں کا بیان۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن عصر کی نماز کچھ دیر کر کے پڑھائی ۔ اس پر عروہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کہا ۔ لیکن جبرئیل علیہ السلام ( نماز کا طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھانے کے لیے ) نازل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر آپ کو نماز پڑھائی ۔ حضرت عمرو بن عبدالعزیز نے کہا ، عروہ ! آپ کو معلوم بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ عروہ نے کہا کہ ( اور سن لو ) میں نے بشیر بن ابی مسعود سے سنا اور انہوں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انہوں نے مجھے نماز پڑھائی ۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر ( دوسرے وقت کی ) ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر ان کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ، اپنی انگلیوں پرآپ نے پانچوں نمازوں کو گن کر بتایا ۔
تشریح :
حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی طور پر اوقات نماز کی تعلیم دینے آئے تھے۔ چنانچہ اول وقت اور آخر وقت ہر دو میں پانچوں نمازوں کو پڑھ کر آپ کو بتلایا۔ یہاں حدیث میں اس پر اشارہ ہے۔ عروہ بن زبیر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو تاخیر نماز عصر پر ٹوکا اور حدیث مذکور بطور دلیل پیش فرمائی پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استفسار پر حدیث مع سند بیان کی، جسے سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یقین کامل حاصل ہوگیا۔ اس حدیث سے نمازعصر کا اول وقت پر ادا کرنا بھی ثابت ہوا۔ جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا معمول ہے۔ ان لوگوں کا عمل خلاف سنت بھی معلوم ہوا جو عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ تو بالکل غروب کے وقت نماز عصر ادا کرنے کے عادی ہیں، ایسے لوگوں کو منافق کہاگیا ہے۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عملی طور پر اوقات نماز کی تعلیم دینے آئے تھے۔ چنانچہ اول وقت اور آخر وقت ہر دو میں پانچوں نمازوں کو پڑھ کر آپ کو بتلایا۔ یہاں حدیث میں اس پر اشارہ ہے۔ عروہ بن زبیر نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو تاخیر نماز عصر پر ٹوکا اور حدیث مذکور بطور دلیل پیش فرمائی پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استفسار پر حدیث مع سند بیان کی، جسے سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیز کو یقین کامل حاصل ہوگیا۔ اس حدیث سے نمازعصر کا اول وقت پر ادا کرنا بھی ثابت ہوا۔ جیسا کہ جماعت اہل حدیث کا معمول ہے۔ ان لوگوں کا عمل خلاف سنت بھی معلوم ہوا جو عصر کی نماز تاخیر کرکے پڑھتے ہیں۔ بعض لوگ تو بالکل غروب کے وقت نماز عصر ادا کرنے کے عادی ہیں، ایسے لوگوں کو منافق کہاگیا ہے۔