‌صحيح البخاري - حدیث 3207

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ صحيح حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، ح وقَالَ لِي خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، وَهِشَامٌ، قَالاَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ البَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ، وَاليَقْظَانِ - وَذَكَرَ: يَعْنِي رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ -، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ، مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَشُقَّ مِنَ النَّحْرِ إِلَى مَرَاقِّ البَطْنِ، ثُمَّ غُسِلَ البَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ مُلِئَ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، وَأُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ، دُونَ البَغْلِ وَفَوْقَ الحِمَارِ: البُرَاقُ، فَانْطَلَقْتُ مَعَ جِبْرِيلَ حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ جِبْرِيلُ: قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى آدَمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، قِيلَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ، قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى عِيسَى، وَيَحْيَى فَقَالاَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الثَّالِثَةَ [ص:110]، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ، وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى يُوسُفَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ قَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قِيلَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِدْرِيسَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ الخَامِسَةَ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْنَا عَلَى هَارُونَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَأَتَيْنَا عَلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قِيلَ جِبْرِيلُ، قِيلَ: مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنْ أَخٍ وَنَبِيٍّ، فَلَمَّا جَاوَزْتُ بَكَى، فَقِيلَ: مَا أَبْكَاكَ: قَالَ: يَا رَبِّ هَذَا الغُلاَمُ الَّذِي بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَفْضَلُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي، فَأَتَيْنَا السَّمَاءَ السَّابِعَةَ، قِيلَ مَنْ هَذَا؟ قِيلَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ مَنْ مَعَكَ؟ قِيلَ: مُحَمَّدٌ، قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ، مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ مِنَ ابْنٍ وَنَبِيٍّ، فَرُفِعَ لِي البَيْتُ المَعْمُورُ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: هَذَا البَيْتُ المَعْمُورُ يُصَلِّي فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا لَمْ يَعُودُوا إِلَيْهِ آخِرَ مَا عَلَيْهِمْ، وَرُفِعَتْ لِي سِدْرَةُ المُنْتَهَى، فَإِذَا نَبِقُهَا كَأَنَّهُ قِلاَلُ هَجَرَ وَوَرَقُهَا، كَأَنَّهُ آذَانُ الفُيُولِ فِي أَصْلِهَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ نَهْرَانِ بَاطِنَانِ، وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، فَسَأَلْتُ جِبْرِيلَ، فَقَالَ: أَمَّا البَاطِنَانِ: فَفِي الجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ: النِّيلُ وَالفُرَاتُ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، فَأَقْبَلْتُ حَتَّى جِئْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: فُرِضَتْ عَلَيَّ خَمْسُونَ صَلاَةً، قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِالنَّاسِ مِنْكَ، عَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ المُعَالَجَةِ، وَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ، فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَسَلْهُ، فَرَجَعْتُ، فَسَأَلْتُهُ، فَجَعَلَهَا أَرْبَعِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ، ثُمَّ ثَلاَثِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عِشْرِينَ، ثُمَّ مِثْلَهُ فَجَعَلَ عَشْرًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى، فَقَالَ: مِثْلَهُ، فَجَعَلَهَا خَمْسًا، فَأَتَيْتُ مُوسَى فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ [ص:111]: جَعَلَهَا خَمْسًا، فَقَالَ مِثْلَهُ، قُلْتُ: سَلَّمْتُ بِخَيْرٍ، فَنُودِيَ إِنِّي قَدْ أَمْضَيْتُ فَرِيضَتِي، وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِي، وَأَجْزِي الحَسَنَةَ عَشْرًا، وَقَالَ هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي البَيْتِ المَعْمُورِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3207

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : فرشتوں کا بیان۔ ہم سے ہدبۃ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا ، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ اور ہشام دستوائی نے بیان کیا ، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا ، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا ۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا ، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا ۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا ۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا ۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی ۔ سفید ، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق ، میں اس پر سوار ہو کر جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ چلا ۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جبرئیل ۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں ، پھر میں آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور انہیں سلام کیا ۔ انہوں نے فرمایا ، آو پیارے بیٹے اور اچھے نبی ۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا ۔ کون صاحب ہیں ؟ کہا جبرئیل ، سوال ہوا ، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں ؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ کہا کہ ہاں ۔ اب ادھر سے جواب آیا ، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں ، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں ۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ علیہ السلام سے ملا ، ان حضرات نے بھی خوش آمدید ، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو ۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں ؟ جواب ملا جبرئیل ، سوال ہوا ، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے ؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، سوال ہوا ، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں ، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں ، یہاں یوسف علیہ السلام سے میں ملا اور انہیں سلام کیا ، انہوں نے فرمایا ، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی ، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا ، کون صاحب ، جواب دیا کہ جبرئیل ، سوال ہوا ، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں ؟ کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ، جواب دیا کہ ہاں ، پھر آواز آئی ، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں ۔ یہاں میں ادریس علیہ السلام سے ملا اور سلام کیا ، انہوں نے فرمایا ، مرحبا ، بھائی اور نبی ۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے ۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ؟ جواب دیا کہ جبرئیل ، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پوچھاگیا ، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا ؟ کہا کہ ہاں ، آواز آئی ، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں ۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں ۔ یہاں ہم ہارون علیہ السلام سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا ۔ انہوں نے فرمایا ، مبارک میرے بھائی اور نبی ، تم اچھی کشادہ جگہ آئے ، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے ، یہاں بھی سوال ہوا ، کون صاحب ؟ جواب دیا کہ جبرئیل ، پوچھاگیا ، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں ؟ کہا کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پوچھاگیا ، کیا انہیں بلایاگیا تھا کہا ہاں ، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں ، اچھے آنے والے ہیں ۔ یہاں میں موسیٰ علیہ السلام سے ملا اور انہیں سلام کیا ۔ انہوں نے فرمایا ، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے ، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی ، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے ، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے ۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں ؟ جواب دیا کہ جبرئیل ، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں ؟ جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا ، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا ؟ مرحبا ، اچھے آنے والے ۔ یہاں میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا اورانہیں سلام کیا ۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی ، مبارک ، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو ، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے اس کے بارے میں پوچھا ، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے ۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں ۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا ۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا ، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان ، اس کیجڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں ، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری ، میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں ، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں ۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ علیہ السلام سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں ، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہو چکا ہے ۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی ، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو ، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو ، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کردیں ۔ پھر بھی موسیٰ علیہ السلام اپنی بات ( یعنی تخفیف کرانے ) پر مصر رہے ۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں ۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کر دیا ۔ میں جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا ۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کردیں ۔ اب موسیٰ علیہ السلام سے ملا ، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا ؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کر دی ہیں ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا ۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کر چکا ۔ پھر آواز آئی ۔ میں نے اپنا فریضہ ( پانچ نمازوں کا ) جاری کردیا ۔ اپنے بندوں پر تخفیف کر چکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں ۔ اور ہمام نے کہا ، ان سے قتادہ نے کہا ، ان سے حسن نے ، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے ۔
تشریح : یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو یہاں اس لیے لائے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے اور یہ فرشتے بے شمار ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میں آسمان میں بالشت بھر جگہ خالی نہیں جہاں ایک فرشتہ اللہ کے لیے سجدہ نہ کررہا ہو۔ واقعہ معراج کا آغاز حطیم سے ہوا۔ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے درمیان سوئے ہوے تھے۔ وہاں سے آپ کا یہ مبارک سفر براق کے ذریعہ شروع ہوا، جو برق بمعنی بجلی سے مشتق ہے۔ معراج برحق ہے اس کا منکر گمراہ اور خاطی ہے۔ تفصیل کے لیے کتب شروح ملاحظہ ہوں۔ قال القاضی عیاض اختلفوٓ فی الاسراءالی السموات فقیل انہ فی المنام والحق الذی علیہ الجمہور انہ اسری بسجدہ فان قیل بین النائم والیقظان یدل علی انہ رویا نوم قلنا لاحجہ فیہ اذقد یکون ذالک حال اول وصول الملک الیہ ولیس فیہ مایدل علی کونہ فائماجی القصتہ کلہا۔ وقال الحافظ عبدالحق فی الجمع بین الصححین وماروی شریک عن انس انہ کان نائما فہو زیادۃ مجہولۃ وقد روی الحفاظ المتقون والائمتہ المشہورون کابن شہاب وابت البنانی و قتادہ عن انس و لم یات احد منہم بہا وشریک بالحافظ عنہ اہل الحدیث ( فتح الباری ) اس طویل عبارت کا خلاصہ یہی ہے کہ معراج جسمانی ہی حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رونا اس خوشی کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو مختصر عمر دینے کے باوجود اپنی نعمتوں سے کس قدر نوازا اور کیسے کیسے درجات عالیہ عطا فرمائے۔ یہ رونافرحت سے تھا نہ کہ حسد اور بغض سیفان ذالک لایلیق بصفات الانبیاءوالاخلاق الاجلۃ من الاولیاءقالہ الخطابی۔ یہ طویل حدیث واقعہ معراج سے متعلق ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو یہاں اس لیے لائے کہ اس میں فرشتوں کا ذکر ہے اور یہ فرشتے بے شمار ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میں آسمان میں بالشت بھر جگہ خالی نہیں جہاں ایک فرشتہ اللہ کے لیے سجدہ نہ کررہا ہو۔ واقعہ معراج کا آغاز حطیم سے ہوا۔ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے درمیان سوئے ہوے تھے۔ وہاں سے آپ کا یہ مبارک سفر براق کے ذریعہ شروع ہوا، جو برق بمعنی بجلی سے مشتق ہے۔ معراج برحق ہے اس کا منکر گمراہ اور خاطی ہے۔ تفصیل کے لیے کتب شروح ملاحظہ ہوں۔ قال القاضی عیاض اختلفوٓ فی الاسراءالی السموات فقیل انہ فی المنام والحق الذی علیہ الجمہور انہ اسری بسجدہ فان قیل بین النائم والیقظان یدل علی انہ رویا نوم قلنا لاحجہ فیہ اذقد یکون ذالک حال اول وصول الملک الیہ ولیس فیہ مایدل علی کونہ فائماجی القصتہ کلہا۔ وقال الحافظ عبدالحق فی الجمع بین الصححین وماروی شریک عن انس انہ کان نائما فہو زیادۃ مجہولۃ وقد روی الحفاظ المتقون والائمتہ المشہورون کابن شہاب وابت البنانی و قتادہ عن انس و لم یات احد منہم بہا وشریک بالحافظ عنہ اہل الحدیث ( فتح الباری ) اس طویل عبارت کا خلاصہ یہی ہے کہ معراج جسمانی ہی حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رونا اس خوشی کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو مختصر عمر دینے کے باوجود اپنی نعمتوں سے کس قدر نوازا اور کیسے کیسے درجات عالیہ عطا فرمائے۔ یہ رونافرحت سے تھا نہ کہ حسد اور بغض سیفان ذالک لایلیق بصفات الانبیاءوالاخلاق الاجلۃ من الاولیاءقالہ الخطابی۔