‌صحيح البخاري - حدیث 3199

كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ صِفَةِ الشَّمْسِ وَالقَمَرِ بِحُسْبَانٍ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ [ص:108] إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِأَبِي ذَرٍّ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ: «أَتَدْرِي أَيْنَ تَذْهَبُ؟»، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ تَحْتَ العَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَيُوشِكُ أَنْ تَسْجُدَ، فَلاَ يُقْبَلَ مِنْهَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ يُؤْذَنَ لَهَا يُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} [يس: 38]

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3199

کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : سورہ رحمن کی اس آیت کی تفسیر کہ سورج اور چاند دونوں حسا ب سے چلتے ہیں ۔ ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم تیمی نے ، ان سے ان کے باپ یزید بن شریک نے اور ان سے ابو ذرغفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سورج غروب ہوا تو ان سے پوچھا کہ تم کو معلوم ہے یہ سورج کہاں جاتا ہے ؟ میں نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جاتا ہے اور عرش کے نیچے پہنچ کر پہلے سجدہ کرتا ہے ۔ پھر ( دوبارہ آنے ) کی اجازت چاہتا ہے اور اسے اجازت دی جاتی ہے اور وہ دن بھی قریب ہے ، جب یہ سجدہ کرے گا تو اس کا سجدہ قبول نہ ہو گا اور اجازت چاہے گا لیکن اجازت نہ ملے گی ۔ بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ جہاں سے آیا تھا وہیں واپس چلا جا ۔ چنانچہ اس دن وہ مغربی ہی سے نکلے گا ۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴾ وَالشَّمسُ تَجرِی لِمُستَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِک َتَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیم﴿ ( یٰس ٓ : ۸۳ ) میں اسی طرف اشارہ ہے ۔
تشریح : اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔ اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغرب فی عین حمئۃ دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کرے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔ پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نچیے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔ دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔ تیسرے اشکال کا جواب یہ کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔ بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔ چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میںطرفین کے دلائل متعارض ہیں۔ اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔ ( مختصر از وحیدی ) آیت شریفہ والشمس تجري لمستقرلہا ( یٰس: 38 ) میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعنی الی انقطلاع بقاءمدۃ العالم اماقولہ مستقرلہا تحت العرش فلا ینکران یکون لہا استقراءتحت العرش من حیث لاندرکہ ولا نشاہدہ و انما اخبر عن غیب فلا نکذبہ ولا نکیفہ لان علمنا لا یحیط بہ۔ انتہیٰ کلام الطیبی اس حدیث میں منکرین حدیث نے کئی اشکال پیدا کئے ہیں، ایک یہ کہ سورج زمین کے نیچے جاتا ہے نہ عرش کے نیچے۔ اور دوسری روایت میں یہ مضمون موجود ہے تغرب فی عین حمئۃ دوسرے یہ کہ زمین اور آسمان گول کرے ہیں تو سورج ہر وقت عرش کے نیچے ہے۔ پھر خاص غروب کے وقت جانے کے کیا معنی؟ تیسرے سورج ایک بے روح اور بے عقل جسم ہے اس کا سجدہ کرنا اور اس کو اجازت ہونے کے کیا معنی؟ چوتھے اکثر حکیموں نے مشاہدہ سے معلوم کیا ہے کہ زمین متحرک اور سورج ساکن ہے تو سورج کے چلنے کے کیا معنے؟ پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب زمین کروی ہوئی تو ہر طرح سے عرش کے نیچے ہوئی اس لیے غروب کے وقت یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج زمین کے نچیے گیا اور عرش کے نیچے گیا۔ دوسرے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہر نقطے اور ہر مقام پر سورج عرش کے نیچے ہے اور وہ ہر وقت اپنے مالک کے لیے سجدہ کررہا ہے اور اس کے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے لیکن چونکہ ہر ملک والوں کا مغرب اور مشرق مختلف ہے اس لیے طلوع اور غروب کے وقت کو خاص کیا۔ تیسرے اشکال کا جواب یہ کہ کہاں سے معلوم ہوا کہ سورج بے جان اور بے عقل ہے۔ بہت سی آیات و احادیث سے سورج اور چاند اور زمین اور آسمان سب کا اپنے اپنے درجہ میں صاحب روح ہونا ثابت ہے۔ چوتھے اشکال کا جواب یہ ہے کہ بہت سے حکیم اس امر کے بھی قائل ہیں کہ زمین ساکن ہے اورسورج اس کے گرد گھومتا ہے اور اس بارے میںطرفین کے دلائل متعارض ہیں۔ اور ظاہر قرآن و حدیث سے تو سورج اور چاند اور تاروں ہی کی حرکت نکلتی ہے۔ ( مختصر از وحیدی ) آیت شریفہ والشمس تجري لمستقرلہا ( یٰس: 38 ) میں مستقر سے مراد بقائے عالم کا انقطاع ہے یعنی الی انقطلاع بقاءمدۃ العالم اماقولہ مستقرلہا تحت العرش فلا ینکران یکون لہا استقراءتحت العرش من حیث لاندرکہ ولا نشاہدہ و انما اخبر عن غیب فلا نکذبہ ولا نکیفہ لان علمنا لا یحیط بہ۔ انتہیٰ کلام الطیبی