كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُرَاهُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: يَشْتِمُنِي ابْنُ آدَمَ، وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتِمَنِي، وَيُكَذِّبُنِي وَمَا يَنْبَغِي لَهُ، أَمَّا شَتْمُهُ فَقَوْلُهُ: إِنَّ لِي وَلَدًا، وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ فَقَوْلُهُ: لَيْسَ يُعِيدُنِي كَمَا بَدَأَنِي
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی
باب : اور اللہ پاک نے فرمایا
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، ان سے ابواحمد نے بیان کیا ، ان سے سفیان ثوری نے ان سے ابوالزناد نے ، ان سے اعرج نے ، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ مجھے گالی دیتا ۔ اس نے مجھے جھٹلایا اور اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا ۔ اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے ، میرا بیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح اللہ نے مجھے پہلی بار پیدا کیا ، دوبارہ ( موت کے بعد ) وہ مجھے زندہ نہیں کرسکے گا ۔
تشریح :
موت کے اخروی زندگی کا تصور وہ ہے جس پر تمام انبیاءکرام کا اتفاق رہا ہے، تورات، زبور، انجیل، قرآن حتیٰ کہ اس ملک ( ہندوستان ) کی مذہبی کتب میں بھی مرنے کے بعد ایک نئی زندگی کا تصور موجود ہے۔ اس کے باوجود کفار نے ہمیشہ اس عقیدے کی تکذیب کی اور اسے ناممکن قرار دیا ہے اور اس پر بہت سے استحالات پیش کرتے چلے آرہے ہیں جو سب باطل محض اور توہمات فاسدہ ہیں۔ اس حدیث میں اس عقیدہ پر وضاحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی کا انکار کرنا اللہ پاک کو جھٹلانا ہے۔ جس اللہ نے انسان کو پہلا وجود عطا فرمایا، اس کے لیے دوبارہ انسان کو پیدا کرنا کیوں مشکل ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی باطل عقیدہ عیسائیوں کا ہے جو اللہ کے لیے ابنیت ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ شان باری تعالیٰ کے اوپر بہت ہی بیہودہ الزام ہے، وہ اللہ ایسے الزامات سے مبرا ہے اور ایسی بے ہودہ بات منھ سے نکالنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دینا بہت ہی بڑا جھوٹ ہے۔ جو سراسر غلط بعید از عقل و بے ہودگی ہے۔ سچ ہے۔ قل ہوا احد ا الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ( اخلاص:1-4 )
موت کے اخروی زندگی کا تصور وہ ہے جس پر تمام انبیاءکرام کا اتفاق رہا ہے، تورات، زبور، انجیل، قرآن حتیٰ کہ اس ملک ( ہندوستان ) کی مذہبی کتب میں بھی مرنے کے بعد ایک نئی زندگی کا تصور موجود ہے۔ اس کے باوجود کفار نے ہمیشہ اس عقیدے کی تکذیب کی اور اسے ناممکن قرار دیا ہے اور اس پر بہت سے استحالات پیش کرتے چلے آرہے ہیں جو سب باطل محض اور توہمات فاسدہ ہیں۔ اس حدیث میں اس عقیدہ پر وضاحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی کا انکار کرنا اللہ پاک کو جھٹلانا ہے۔ جس اللہ نے انسان کو پہلا وجود عطا فرمایا، اس کے لیے دوبارہ انسان کو پیدا کرنا کیوں مشکل ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی باطل عقیدہ عیسائیوں کا ہے جو اللہ کے لیے ابنیت ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ شان باری تعالیٰ کے اوپر بہت ہی بیہودہ الزام ہے، وہ اللہ ایسے الزامات سے مبرا ہے اور ایسی بے ہودہ بات منھ سے نکالنا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دینا بہت ہی بڑا جھوٹ ہے۔ جو سراسر غلط بعید از عقل و بے ہودگی ہے۔ سچ ہے۔ قل ہوا احد ا الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد ( اخلاص:1-4 )