كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلْتُ نَاقَتِي بِالْبَابِ، فَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَقَالَ: «اقْبَلُوا البُشْرَى يَا بَنِي تَمِيمٍ»، قَالُوا: قَدْ بَشَّرْتَنَا فَأَعْطِنَا، مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ اليَمَنِ، فَقَالَ: «اقْبَلُوا البُشْرَى يَا أَهْلَ اليَمَنِ، إِذْ لَمْ يَقْبَلْهَا بَنُو تَمِيمٍ»، قَالُوا: قَدْ قَبِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالُوا: جِئْنَاكَ نَسْأَلُكَ [ص:106] عَنْ هَذَا الأَمْرِ؟ قَالَ: «كَانَ اللَّهُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُهُ، وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ، وَكَتَبَ فِي الذِّكْرِ كُلَّ شَيْءٍ، وَخَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ» فَنَادَى مُنَادٍ: ذَهَبَتْ نَاقَتُكَ يَا ابْنَ الحُصَيْنِ، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هِيَ يَقْطَعُ دُونَهَا السَّرَابُ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ تَرَكْتُهَا،
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیوں کر شروع ہوئی باب : اور اللہ پاک نے فرمایا ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ، کہا ہم سے جامع بن شداد نے بیان کیا ، ان سے صفوان بن مرحز نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور اپنے اونٹ کو میں نے دروازے ہی پر باندھ دیا ۔ اس کے بعد بنی تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے بنوتمیم ! خوشخبری قبول کرو ۔ انہوں نے دوبار کہا کہ جب آپ نے ہمیں خوش خبری دی ہے تو اب مال بھی دیجئے ۔ پھر یمن کے چند لوگ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی یہی فرمایا کہ خوش خبری قبول کرلو اے یمن والو ! بنوتمیم والوں نے تو نہیں قبول کی ۔ وہ بولے یا رسول اللہ ! خوش خبری ہم نے قبول کی ۔ پھر وہ کہنے لگے ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ آپ سے اس ( عالم کی پیدائش ) کا حال پوچھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا ۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ ( ابھی یہ باتیں ہوہی رہی تھیں کہ ) ایک پکارنے والے نے آواز دی کہ ابن الحصین ! تمہاری اونٹنی بھاگ گئی ۔ میں اس کے پیچھے دوڑا ۔ دیکھا تو وہ سراب کی آڑ میں ہے ( میرے اور اس کے بیچ میں سراب حائل ہے یعنی وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے ) اللہ تعالیٰ کی قسم ، میرا دل بہت پچھتایا کہ کاش ، میں اسے چھوڑ دیا ہوتا ( اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنی ہوتی ) ۔