كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ المُصَالَحَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ وَقْتٍ مَعْلُومٍ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي البَرَاءُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ، فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لاَ يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلاَثَ لَيَالٍ، وَلاَ يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلاَحِ، وَلاَ يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ [ص:104] بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ، وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ» قَالَ: وَكَانَ لاَ يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ لِعَلِيٍّ: «امْحَ رَسُولَ اللَّهِ» فَقَالَ عَلِيٌّ: وَاللَّهِ لاَ أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: «فَأَرِنِيهِ»، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَتِ الأَيَّامُ، أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ، فَذَكَرَ ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «نَعَمْ» ثُمَّ ارْتَحَلَ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : تین دن یا ایک معین مدت کے لیے صلح کرنا
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن ابی اسحاق نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا ۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ ( اجازت دی ) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں ۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور ( مکہ کے ) کسی آدمی کو اپنے ساتھ ( مدینہ ) نہ لے جائیں ( اگر چہ وہ جانا چاہے ) انھوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح ” یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے ۔ ‘ ‘ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے ، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے ، ” یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے ‘ ‘ ۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے ۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاوں گا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاو ، راوی نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ لفظ دکھایا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا ۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور ( تین ) دن گزر گئے تو قریش حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں ( علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں ، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے ۔
تشریح :
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انکار حکم عدولی اور مخالفت کے طور پر نہ تھا۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خیرخواہی اور جوش ایمان کی وجہ سے تھا۔ اس لیے کوئی گناہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نہ ہوا۔ یہاں سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہئے کہ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محض محبت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے خلاف کیا، ویسا ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی قصہ قرطاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کے خیال سے لکھے جانے میں مخالفت کی۔ دونوں کی نیت بخیر تھی۔
کارپاکاں از قیاس خود مگیر ایک جگہ حسن ظن کرنا، دوسری جگہ بدظنی صریح انصاف سے بعید ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انکار حکم عدولی اور مخالفت کے طور پر نہ تھا۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور خیرخواہی اور جوش ایمان کی وجہ سے تھا۔ اس لیے کوئی گناہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نہ ہوا۔ یہاں سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہئے کہ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محض محبت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کے خلاف کیا، ویسا ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی قصہ قرطاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کے خیال سے لکھے جانے میں مخالفت کی۔ دونوں کی نیت بخیر تھی۔
کارپاکاں از قیاس خود مگیر ایک جگہ حسن ظن کرنا، دوسری جگہ بدظنی صریح انصاف سے بعید ہے۔