كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ صِلِيهَا»
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے حاتم نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ قریش سے جس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حدیبیہ کی ) صلح کی تھی ، اسی مدت میں میری والدہ ( قتیلہ ) اپنے باپ ( حارث بن مدرک ) کو ساتھ لے کر میرے پاس آئیں ، وہ اسلام میں داخل نہیں ہوئی تھیں ۔ ( عروہ نے بیان کیا کہ ) حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میری والدہ آئی ہوئی ہیں اور مجھ سے رغبت کے ساتھ ملنا چاہتی ہیں ، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ! ان کے ساتھ صلہ رحمی کر ۔
تشریح :
باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ ان کی والدہ بھی قریش کے کافروں میں شامل تھیں اور چونکہ ان سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی تھی اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماءرضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کریں۔
باب سے اس حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ ان کی والدہ بھی قریش کے کافروں میں شامل تھیں اور چونکہ ان سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی تھی اس لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماءرضی اللہ عنہا کو اجازت دی کہ اپنی والدہ سے اچھا سلوک کریں۔