كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ المُوَادَعَةِ وَالمُصَالَحَةِ مَعَ المُشْرِكِينَ بِالْمَالِ وَغَيْرِهِ، وَإِثْمِ مَنْ لَمْ يَفِ بِالعَهْدِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ هُوَ ابْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: انْطَلَقَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ، إِلَى خَيْبَرَ وَهِيَ يَوْمَئِذٍ صُلْحٌ، فَتَفَرَّقَا فَأَتَى مُحَيِّصَةُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ وَهُوَ يَتَشَمَّطُ فِي دَمِهِ قَتِيلًا، فَدَفَنَهُ ثُمَّ قَدِمَ المَدِينَةَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةُ، وَحُوَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ: «كَبِّرْ كَبِّرْ» وَهُوَ أَحْدَثُ القَوْمِ، فَسَكَتَ فَتَكَلَّمَا، فَقَالَ: «تَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ، أَوْ صَاحِبَكُمْ»، قَالُوا: وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ وَلَمْ نَرَ؟ قَالَ: «فَتُبْرِيكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ»، فَقَالُوا: كَيْفَ نَأْخُذُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ، فَعَقَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : مشرکوں سے مال وغیرہ پرصلح کرنا ، لڑائی چھوڑ دینا ، اور جو کوئی عہد پورا نہ کرے اس کا گناہ
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے ، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے ، ان سے بشیر بن یسار نے اور ان سے سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر گئے ۔ ان دنوں ( خیبر کے یہودیوں سے مسلمانوں کی ) صلح تھی ۔ پھر دونوں حضرات ( خیبرپہنچ کر اپنے اپنے کام کے لیے ) جدا ہوگئے ۔ اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خون میں لوٹ رہے ہیں ۔ کسی نے ان کو قتل کر ڈالا ، خیر محیصہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دفن کر دیا ۔ پھر مدینہ آئے ، اس کے بعد عبدالرحمن بن سہل ( عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ) اور مسعود کے دونوں صاحبزادے محیصہ اور حویصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، گفتگو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے شروع کی ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کہ جو تم لوگوں میں عمر میں بڑے ہوں وہ بات کریں ۔ عبدالرحمن سب سے کم عمر تھے ، وہ چپ ہو گئے ۔ اور محیصہ اور حویصہ نے بات شروع کی ۔ آپ نے دریافت کیا ، کیا تم لوگ اس پر قسم کھا سکتے ہو ، کہ جس شخص کو تم قاتل کہہ رہے ہو اس پر تمہارا حق ثابت ہو سکے ۔ ان لوگوں نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے معاملے میں کس طرح قسم کھا سکتے ہیں جس کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا یہود تمارے دعوے سے اپنی برات اپنی طرف سے پچاس قس میں کھا کرکے کردیں ؟ ان لوگوں نے عرض کیا کہ کفار کی قسموں کا ہم کس طرح اعتبار کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کو دیت ادا کردی ۔
تشریح :
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت ادا کرکے خیبر کے یہودیوں سے صلح قائم رکھی، باب کا یہ ترجمہ جو کوئی عہد کو پورا نہ کرے اس کا گناہ حدیث سے نہیں نکلتا۔ شاید حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اس باب میں کوئی حدیث لکھنی منظور تھی اتفاق نہ ہوا یا اس مضمون کی حدیث ان کو ان کی شرط کے مطابق نہ ملی۔ قاتل پر حق ثابت ہونے سے مقتول کے آدمیوں کو دیت دینی ہوگی۔ وہ قاتل اگر قتل کا اقرار کرلے تو قصاص بھی لیا جاسکتاہے۔ یہ قسامت کی صورت ہے۔ اس میں مدعی سے پچاس قسمیں لی جاتی ہیں کہ میرا گمان فلاں شخص پر ہے کہ اسی نے مارا ہے۔
اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح جوئی، امن پسند پالیسی، فراخدلی بھی ثابت ہوئی، باوجودیکہ مقتول ایک مسلمان تھا جو یہود کے ماحول میں قتل ہوا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس حرکت کو نظرانداز فرمادیا، تاکہ امن کی فضا قائم رہے۔ اور کوئی طویل فساد نہ کھڑا ہوجائے، آپ نے مسلمان مقتول کے وارثوں کو خود بیت المال سے دیت ادا فرمادی، ایسے واقعات سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اسلام کو بزور تلوار پھیلانے کا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ مذاہب کی دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ امن دینے کا حامی ہے۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے دیت ادا کرکے خیبر کے یہودیوں سے صلح قائم رکھی، باب کا یہ ترجمہ جو کوئی عہد کو پورا نہ کرے اس کا گناہ حدیث سے نہیں نکلتا۔ شاید حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اس باب میں کوئی حدیث لکھنی منظور تھی اتفاق نہ ہوا یا اس مضمون کی حدیث ان کو ان کی شرط کے مطابق نہ ملی۔ قاتل پر حق ثابت ہونے سے مقتول کے آدمیوں کو دیت دینی ہوگی۔ وہ قاتل اگر قتل کا اقرار کرلے تو قصاص بھی لیا جاسکتاہے۔ یہ قسامت کی صورت ہے۔ اس میں مدعی سے پچاس قسمیں لی جاتی ہیں کہ میرا گمان فلاں شخص پر ہے کہ اسی نے مارا ہے۔
اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح جوئی، امن پسند پالیسی، فراخدلی بھی ثابت ہوئی، باوجودیکہ مقتول ایک مسلمان تھا جو یہود کے ماحول میں قتل ہوا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس حرکت کو نظرانداز فرمادیا، تاکہ امن کی فضا قائم رہے۔ اور کوئی طویل فساد نہ کھڑا ہوجائے، آپ نے مسلمان مقتول کے وارثوں کو خود بیت المال سے دیت ادا فرمادی، ایسے واقعات سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اسلام کو بزور تلوار پھیلانے کا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ مذاہب کی دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ امن دینے کا حامی ہے۔