كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ أَمَانِ النِّسَاءِ وَجِوَارِهِنَّ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟»، فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: «مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ»، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّي عَلِيٌّ أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلاَنُ بْنُ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ»، قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَلِكَ ضُحًى
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : ( مسلمان ) عورتیں اگر کسی ( غیرمسلم ) کو امان اور پناہ دیں؟
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں عمرو بن عبداللہ کے غلام ابوالنضر نے ، انہیں ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ نے خبر دی ، انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہما سے سنا ، آپ بیان کرتی تھیں کہ فتح مکہ کے موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی ( مکہ میں ) میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی صاحبزادی پردہ کئے ہوئے تھیں ۔ میں نے آپ کو سلام کیا ، تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کون صاحبہ ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ میں ام ہانی بنت ابی طالب ہوں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، آو اچھی آئیں ، ام ہانی ! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک کپڑا جسم اطہر پر لپیٹے ہوئے تھے ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ماں کے بیٹے حضرت علی کہتے ہیں کہ وہ ایک شخص کو جسے میں پناہ دے چکی ہوں ، قتل کئے بغیر نہیں رہیں گے ۔ یہ شخص ہبیرہ کا فلاں لڑکا ( جعدہ ) ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ام ہانی ! جسے تم نے پناہ دی ، اسے ہماری طرف سے بھی پناہ ہے ۔ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہ وقت چاشت کا تھا ۔
تشریح :
ہبیرہ ام ہانی کے خاوند تھے، جعدہ ان کے بیٹے تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے بھانجے کو کیوں مارتے، بعضوں نے کہافلاں ابن ہبیرہ سے حارث بن ہشام محرومی مراد ہیں۔ غرض حدیث سے یہ نکلا کہ عورت کا پناہ دینا درست ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ بعضوں نے کہا امام کو اختیار ہے۔ چاہے اس امان کو منظور کرے چاہے نہ کرے۔
ہبیرہ ام ہانی کے خاوند تھے، جعدہ ان کے بیٹے تھے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے بھانجے کو کیوں مارتے، بعضوں نے کہافلاں ابن ہبیرہ سے حارث بن ہشام محرومی مراد ہیں۔ غرض حدیث سے یہ نکلا کہ عورت کا پناہ دینا درست ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ بعضوں نے کہا امام کو اختیار ہے۔ چاہے اس امان کو منظور کرے چاہے نہ کرے۔