كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ دُعَاءِ الإِمَامِ عَلَى مَنْ نَكَثَ عَهْدًا صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ القُنُوتِ، قَالَ: قَبْلَ الرُّكُوعِ، فَقُلْتُ: إِنَّ فُلاَنًا يَزْعُمُ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ؟ فَقَالَ: كَذَبَ، ثُمَّ حَدَّثَنَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ، يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ»، قَالَ: «بَعَثَ أَرْبَعِينَ - أَوْ سَبْعِينَ يَشُكُّ فِيهِ - مِنَ القُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ المُشْرِكِينَ»، فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلاَءِ فَقَتَلُوهُمْ، وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، «فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ»
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : وعدہ توڑنے والوں کے حق میں امام کی بددعا
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا ، ہم سے عاصم احول نے ، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعاء قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے ، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب ( محمد بن سیرین ) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے ، انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے ۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعاء قنوت کی تھی ۔ اور آپ نے اس میں قبیلہ بنوسلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت ، راوی کو شک تھا ، مشرکین کے پاس بھیجی تھی ، لیکن بنوسلیم کے لوگ ( جن کا سردار عامر بن طفیل تھا ) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا ۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا ۔ ( لیکن انہوں نے دغا دی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے ۔
تشریح :
تشریح : کیوں کہ یہ لوگ قاری اور عالم تھے۔ اگر یہ زندہ رہتے تو ان سے ہزارہا لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔ اسی لیے ایک سچے عالم کی موت کو عالم جہان کی موت کہاگیا ہے۔
قنوت قبل الرکوع اور بعدالرکوع کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا استاذ عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔
ورواہ ابن المنذر عن انس بلفظ ان بعض اصحابہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنتوا فی صلوٰۃ الفجر قبل الرکوع و بعضہم بعد الرکوع و ہذا کلہ یدل علی اختلاف عمل الصحابۃ فی محل قنوت المکتوبۃ فقنت بعضہم قبل الرکوع و بعضہم بعدہ و اما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یثبت عنہ القنوت فی المکتوبۃ الاعندالنازلۃ یقنت فی النازلۃ الا بعد الرکوع ہذا ما تحقق لی واللہ اعلم ( مرعاۃ المفاتیح، جلد: 2ص:224 ) یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو ابن منذر نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، بعض رکوع کے بعد پڑھتے اور ان سب سے معلوم ہوتاہے کہ فرض نمازوں میں محل قنوت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں میں سوائے قنوت نازلہ کے اور کوئی قنوت ثابت نہیں ہوئی۔ آپ نے صرف قنوت نازلہ پڑھی اور وہ رکوع کے بعد پڑھی ہے میری تحقیق یہی ہے واللہ اعلم۔
امام نووی استحباب القنوت میں فرماتے ہیں و محل القنوت بعد رفع الراس فی الرکوع فی الرکعۃ الاخیرہ یعنی قنوت پڑھنے کا محل آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے۔ حدیث ہذا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بیان متعلق قنوت کا تعلق ان کی اپنی معلومات کی حد تک ہے۔ واللہ اعلم
تشریح : کیوں کہ یہ لوگ قاری اور عالم تھے۔ اگر یہ زندہ رہتے تو ان سے ہزارہا لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔ اسی لیے ایک سچے عالم کی موت کو عالم جہان کی موت کہاگیا ہے۔
قنوت قبل الرکوع اور بعدالرکوع کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا استاذ عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔
ورواہ ابن المنذر عن انس بلفظ ان بعض اصحابہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنتوا فی صلوٰۃ الفجر قبل الرکوع و بعضہم بعد الرکوع و ہذا کلہ یدل علی اختلاف عمل الصحابۃ فی محل قنوت المکتوبۃ فقنت بعضہم قبل الرکوع و بعضہم بعدہ و اما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلم یثبت عنہ القنوت فی المکتوبۃ الاعندالنازلۃ یقنت فی النازلۃ الا بعد الرکوع ہذا ما تحقق لی واللہ اعلم ( مرعاۃ المفاتیح، جلد: 2ص:224 ) یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو ابن منذر نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، بعض رکوع کے بعد پڑھتے اور ان سب سے معلوم ہوتاہے کہ فرض نمازوں میں محل قنوت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں میں سوائے قنوت نازلہ کے اور کوئی قنوت ثابت نہیں ہوئی۔ آپ نے صرف قنوت نازلہ پڑھی اور وہ رکوع کے بعد پڑھی ہے میری تحقیق یہی ہے واللہ اعلم۔
امام نووی استحباب القنوت میں فرماتے ہیں و محل القنوت بعد رفع الراس فی الرکوع فی الرکعۃ الاخیرہ یعنی قنوت پڑھنے کا محل آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے۔ حدیث ہذا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بیان متعلق قنوت کا تعلق ان کی اپنی معلومات کی حد تک ہے۔ واللہ اعلم