كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ إِخْرَاجِ اليَهُودِ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الأَحْوَلِ، سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: يَوْمُ الخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الخَمِيسِ، ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الحَصَى، قُلْتُ يَا أَبَا عَبَّاسٍ: مَا يَوْمُ الخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا»، فَتَنَازَعُوا، وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، فَقَالُوا: مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ؟ فَقَالَ: «ذَرُونِي، فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ»، فَأَمَرَهُمْ بِثَلاَثٍ، قَالَ: «أَخْرِجُوا المُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ العَرَبِ، وَأَجِيزُوا الوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ، إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا، وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا، قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
باب : یہودیوں کو عرب کے ملک سے نکال باہر کرنا
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے سلیمان احول نے ، انہوں نے سعید بن جبیر سے سنا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا آپ نے جمعرات کے دن کا ذکر کرتے ہوئے کہا ، تمہیں معلوم ہے کہ جمعرات کا دن ، ہائے ! یہ کون سا دن ہے ؟ اس کے بعد وہ اتنا روئے کہ ان کے آنسووں سے کنکریاں تر ہوگئیں ۔ سعید نے کہا میں نے عرض کیا ، یا ابوعباس ! جمعرات کے دن سے کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف ( مرض الموت ) میں شدت پیدا ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے ( لکھنے کا ) ایک کاغذ دے دو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھ جاوں ، جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو ۔ اس پر لوگوں کا اختلاف ہوگیا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ نبی کی موجودگی میں جھگڑنا غیر مناسب ہے ، دوسرے لوگ کہنے لگے ، بھلا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے کار باتیں فرمائیں گے اچھا ، پھر پوچھ لو ، یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ، کیوں کہ اس وقت میں جس عالم میں ہوں ، وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو ۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کا حکم فرمایا ، کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور وفود کے ساتھ اسی طرح خاطر تواضع کا معاملہ کرنا ، جس طرح میں کیا کرتا تھا ۔ تیسری بات کچھ بھلی سی تھی ، یا تو سعید نے اس کو بیان نہ کیا ، یا میں بھول گیا ۔ سفیان نے کہا یہ جملہ ( تیسری بات کچھ بھلی سی تھی ) سلیمان احول کا کلام ہے ۔ اور یہ تھی کہ اسامہ کا لشکر تیار کردینا ، یا نماز کی حفاظت کرنا ، یا لونڈی غلاموں سے اچھا سلوک کرنا ۔
تشریح :
تشریح : اہجرالہمزہ للاستفہام الانکاری لان معنی ہجر ہذی وانما جاءمن قائلہ استفہا ماللانکار علی من قال لاتکتبوا ای تترکوا امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا تجعلوہ کامر من ہجر فی کلامہ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لایہجر الخ کذا فی الطیبی یعنی یہاں ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ جن لوگوں نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اب لکھوانے کی تکلیف نہ دو، ان سے کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذیان نہیں ہوگیا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذیان والے پر قیاس کرکے ترک نہ کرو۔ آپ سے ہذیان ہو یہ ناممکن ہے۔ اس سلسلہ کی تفصیلی بحث اسی پارہ میں گزرچکی ہے۔
کتاب لکھے جانے پر صحابہ کا احتلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ بعض صحابہ نے کہا کہ آنحضرت کو اس شدت تکلیف میں مزید تکلیف نہ دینی چاہئے۔
بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ جس کا مطلب یہ کہ اگر لکھوانا فرض ہوتا تو آپ کسی کے کہنے سے یہ فرض ترک نہ کرتے، فقط برائے مصلحت ایک بات ذہن میں آئی تھی، بعد میں آپ نے خود اسے ضروری نہیں سمجھا۔ منقول ہے کہ آپ خلافت صدیقی کے بارے میں قطعی فیصلہ لکھ کر جانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مرض الموت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حوالے منبر و محراب فرمادیا تھا۔
تشریح : اہجرالہمزہ للاستفہام الانکاری لان معنی ہجر ہذی وانما جاءمن قائلہ استفہا ماللانکار علی من قال لاتکتبوا ای تترکوا امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا تجعلوہ کامر من ہجر فی کلامہ لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لایہجر الخ کذا فی الطیبی یعنی یہاں ہمزہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ جن لوگوں نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اب لکھوانے کی تکلیف نہ دو، ان سے کہا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذیان نہیں ہوگیا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذیان والے پر قیاس کرکے ترک نہ کرو۔ آپ سے ہذیان ہو یہ ناممکن ہے۔ اس سلسلہ کی تفصیلی بحث اسی پارہ میں گزرچکی ہے۔
کتاب لکھے جانے پر صحابہ کا احتلاف اس وجہ سے ہوا تھا کہ بعض صحابہ نے کہا کہ آنحضرت کو اس شدت تکلیف میں مزید تکلیف نہ دینی چاہئے۔
بعد میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ جس کا مطلب یہ کہ اگر لکھوانا فرض ہوتا تو آپ کسی کے کہنے سے یہ فرض ترک نہ کرتے، فقط برائے مصلحت ایک بات ذہن میں آئی تھی، بعد میں آپ نے خود اسے ضروری نہیں سمجھا۔ منقول ہے کہ آپ خلافت صدیقی کے بارے میں قطعی فیصلہ لکھ کر جانا چاہتے تھے تاکہ بعد میں اختلاف نہ ہو۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مرض الموت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حوالے منبر و محراب فرمادیا تھا۔