‌صحيح البخاري - حدیث 3162

كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ الوَصَاةِ بِأَهْلِ ذِمَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جُوَيْرِيَةَ بْنَ قُدَامَةَ التَّمِيمِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قُلْنَا: أَوْصِنَا يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، قَالَ: «أُوصِيكُمْ بِذِمَّةِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ ذِمَّةُ نَبِيِّكُمْ، وَرِزْقُ عِيَالِكُمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3162

کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں باب : آنحضرت ﷺ نے جن کافروں کو امان دی ( اپنے ذمہ میں لیا ) ان کے امان کو قائم رکھنے کی وصیت کرنا ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے جویریہ بن قدامہ تمیمی سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا تھا ، ( جب وہ زخمی ہوئے ) آپ سے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمیں کوئی وصیت کیجئے ! تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عہد کی ( جو تم نے ذمیوں سے کیا ہے ) وصیت کرتا ہوں ( کہ اس کی حفاظت میں کوتاہی نہ کرنا ) کیوں کہ وہ تمہارے نبی کا ذمہ ہے اور تمہارے گھر والوں کی روزی ہے ( کہ جزیہ کے روپیہ سے تمہارے بال بچوں کی گزران ہوتی ہے ) ۔
تشریح : <قرآن> تشریح : امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ وہ عالی شان وصیت ہے جس پر اسلام ہمیشہ نازاں رہے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی جہاد کا منشاءغیرمسلم اقوام کو مٹانا یا ستانا ہرگز نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ متعصب لوگوں نے جہاد کے سلسلہ میں اسلام کو ہدف ملامت بنایا ہے۔ جن کے جواب میں خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب جھنڈانگری ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نےپال نے ایک تفصیلی مقالہ مرحمت فرمایا ہے۔ جسے ہم مولانا کے شکریہ کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں۔ جس کے مطالعہ سے ناظرین بخاری شریف کی معلومات میں بیش از بیش اضافہ ہوگا۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں۔ ” جہاد کے مفہوم سے بے خبری پر اہل یوروپ مستشرقین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جہاد غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کا نام ہے۔ اگرچہ ان غیرمسلموںنے مسلمانوں پر کوئی زیادتی اور ان کے ساتھ کوئی دشمنی نہ کی ہو، لیکن اہل یوروپ سراسر کذب و افتراءسے کام لیتے ہیں۔ کیوں کہ ادنیٰ تامل سے یہ اعتراض غلط اور باطل ثابت ہوجاتا ہے۔ سورۃ انفال و سورۃ بقرہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے اندر زبردستی نہیں ہے۔ اصل میں قرآن کریم میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ جنگ و قتال کی جو آیات ہیں ان سے ناواقفوں کو سرسری مطالعہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ اسلام تمام مذاہب کا دشمن ہے، مگر یہ غلط فہمی ان آیات کے پس منظر سے ناواقفیت کے سبب پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کی دو قسمیں ہے، ایک وہ جو اسلام اور مسلمانوں کے معاند اور ان کے دشمن ہیں، دوسرے وہ جن کو مسلمانوں سے کوئی مخاصمت اور دشمنی نہیں ہے ان دونوں کے لیے احکام جدا جدا ہیں۔ جو غیرمسلم مسلمانوں کے دشمن اور درپے آزار نہیں ہیں ان کا حکم جدا ہے۔ ان کے ساتھ دنیاوی تعلقات اور حسن سلوک کی ممانعت نہیں ہے۔ ارشاد ہے۔ <حدیث> لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجو کم من دیارکم ان تبروہم و تقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینہکم اللہ عن الذین قاتلو کم فی الدین واخرجوکم من دیارکم و ظاہروا علی اخراجکم ان تولوہم و من یتولہم فاولئک ہم الظلمون ( الممتحنۃ: 8,9 ) ” یعنی جو لوگ تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کرتے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ احسان و سلوک اور عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو صرف انہی لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو دین کے بارے میں تم سے لڑے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں مخالفوں کی مدد کی، جو ایسے لوگوں سے دوستی رکھے گا، وہ ظالموں میں سے ہوگا “۔ اور جو غیرمسلم مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں اور ان کو مٹانے، جلانے اور برباد کرنے کے درپے رہتے ہیں ان سے دوستی قطعاً حرام ہے اور ان کے قتل کے جواب میں قتل و قتال کے احکام موجود ہیں۔ لیکن ایسی جنگ میں بھی ظلم و زیادتی کی ممانعت موجود ہے۔ ارشاد ہے۔ <قرآن> وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین اور جو تم سے لڑیں تم بھی اللہ کے راستے میں ان سے لڑو، مگر کسی قسم کی زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جہاد کے متعلق جو تفصیل لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمن سے جہاد تلوار، اسلحہ کے ذریعہ صرف اسی وقت ضروری ہے جبکہ مسلمانوں پر کفار زیادتی و دشمنی کا کھلم کھلا رویہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ” مجموعہ رسائل تحت قتال الکفار “ میں صراحت کی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے لااکراہ فی الدین دین میں زبردستی نہیں ہے۔ فلوکان الکافر یقتل حتیٰ یسلم لکان ہذا اعظم الاکراہ علی الدین پس اگر مسئلہ شرعی یہ ہو کہ جب کافر مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کردیا جائے تو مذہب پر جبر و اکراہ کی اس سے بڑی شکل اور کیا ہے؟ اسلام کا مقصد محض کافروں کو قتل کرڈالنا اور ان کے اموال و جائیداد کو حاصل کرلینا نہیں ہے بلکہ جہاد کا مطلب استیلاءاسلام ہے جو دین حق ہے اور دراصل حقیقتاً دین و دنیا کا اعتدال و توازن اسلام کے نظام میں مضمر ہے۔ اس کو تمام عالم میں عام کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے الذین اٰمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیاءالشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا اسی معنی میں دوسری جگہ ارشاد ہے وقتلوہم حتي لا تکون فتن ویکون الدین للہ فان النتہوا فلا عدوان الا علي الظلمین ( البقرہ: 193 ) یعنی اور ان سے جہاد کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے ( اور دین اللہ ہی کا ہوجائے ) پس اگر وہ باز آجائیں، تو پھر زیادتی نہیں کرنا ہے مگر ظالموں پر۔ اگر اسلام کا مقصد محض قتال کفار ہوتا تو پھر عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور گوشہ گیر فقیروں کو قتال کے حکم سے کیوں مستثنیٰ کیا جاتا؟ کیوں کہ علت کفر تو سب میں مشترک ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت جابرص سے اسی طرح مروی ہے کہ لاتقتلواذریۃ ولاعسیفا ولاشیخا فانیا ولاطفلا صغیراً ولا امراۃ یعنی چھوٹے بچوں، بیگار میں پکڑے ہوئے مزدوروں، کمزوروں اور بڈھوں، نابالغ لڑکوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔ ( السیاسۃ الشرعیۃ ص: 51۔ و مؤطا معہ مسویٰ جلد ثانی ص 132 ) اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرص نے امیر لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا کہ دیکھو خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا اور دشمن کا ہاتھ پاؤں مت کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور ان لوگوں کو کچھ نہ کہنا جنہوں نے اپنی زندگی عبادت گاہوں، گرجاگھروں میں وقف کردی ہے۔ ( صدیق اکبر مؤلفہ مولانا سعید احمد اکبرآبادی، بحوالہ طبری ص329 ) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر کفرکا اقتدار وجہ فتنہ بن جائے تو فتنہ کو ختم کرنے کے لیے قتال ضروری ہے ورنہ نہیں۔ فرماتے ہیں۔ فمن لم یمنع المسلمین من اقامۃ الدین الاسلام لم یکن مضرۃ کفرہ الاعلی نفسہ ( السیاسۃ الشرعیۃ ابن تیمیہ، ص: 59 ) جزیہ بھی اسلام کے اقتدار و بالادستی کو تسلیم کرنے کی غرض سے ہے، ورنہ محض تحصیل خراج و جزیہ اسلام کا ہرگز مقصد نہ تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خراسان کے عامل جراح بن عبداللہ کو اس لیے معطل کردیا کہ انہوں نے جزیہ کو کم دیکھ کر نومسلموں سے کہا کہ تم لوگ اس لیے اسلام لے آئے ہو کہ جزیہ سے بچ جاؤ۔ یہ بات حضرت عمر بن عبدالعزیز تک پہنچی تو عامل کو معزول کرتے ہوئے ایک سنہرا مقولہ تحریر فرمایا کہ ” حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دعوت حق کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپ خراج و جزیہ کے محصل بناکر نہیں بھیجے گئے تھے “۔ ( البدایہ والنہایہ جلد تاسع ص188 ) بہرحال اسلام کا مقصد حصول اقتدار و استیلاءصرف اس لیے ہے تاکہ دین و دنیا میں اعتدال و توازن اور امن و امان قائم رہے اور نظام اسلام کے ذریعہ اقوام عالم کو سکون قلب اور امن و استقلال کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہوں “۔ <قرآن> تشریح : امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ وہ عالی شان وصیت ہے جس پر اسلام ہمیشہ نازاں رہے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلامی جہاد کا منشاءغیرمسلم اقوام کو مٹانا یا ستانا ہرگز نہیں ہے۔ پھر بھی کچھ متعصب لوگوں نے جہاد کے سلسلہ میں اسلام کو ہدف ملامت بنایا ہے۔ جن کے جواب میں خطیب الاسلام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب جھنڈانگری ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈانگر نےپال نے ایک تفصیلی مقالہ مرحمت فرمایا ہے۔ جسے ہم مولانا کے شکریہ کے ساتھ یہاں درج کرتے ہیں۔ جس کے مطالعہ سے ناظرین بخاری شریف کی معلومات میں بیش از بیش اضافہ ہوگا۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں۔ ” جہاد کے مفہوم سے بے خبری پر اہل یوروپ مستشرقین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جہاد غیرمسلموں کو زبردستی مسلمان بنانے کا نام ہے۔ اگرچہ ان غیرمسلموںنے مسلمانوں پر کوئی زیادتی اور ان کے ساتھ کوئی دشمنی نہ کی ہو، لیکن اہل یوروپ سراسر کذب و افتراءسے کام لیتے ہیں۔ کیوں کہ ادنیٰ تامل سے یہ اعتراض غلط اور باطل ثابت ہوجاتا ہے۔ سورۃ انفال و سورۃ بقرہ میں یہ تفصیل موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دین کے اندر زبردستی نہیں ہے۔ اصل میں قرآن کریم میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ جنگ و قتال کی جو آیات ہیں ان سے ناواقفوں کو سرسری مطالعہ سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ اسلام تمام مذاہب کا دشمن ہے، مگر یہ غلط فہمی ان آیات کے پس منظر سے ناواقفیت کے سبب پیدا ہوگئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غیرمسلموں کی دو قسمیں ہے، ایک وہ جو اسلام اور مسلمانوں کے معاند اور ان کے دشمن ہیں، دوسرے وہ جن کو مسلمانوں سے کوئی مخاصمت اور دشمنی نہیں ہے ان دونوں کے لیے احکام جدا جدا ہیں۔ جو غیرمسلم مسلمانوں کے دشمن اور درپے آزار نہیں ہیں ان کا حکم جدا ہے۔ ان کے ساتھ دنیاوی تعلقات اور حسن سلوک کی ممانعت نہیں ہے۔ ارشاد ہے۔ <حدیث> لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجو کم من دیارکم ان تبروہم و تقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینہکم اللہ عن الذین قاتلو کم فی الدین واخرجوکم من دیارکم و ظاہروا علی اخراجکم ان تولوہم و من یتولہم فاولئک ہم الظلمون ( الممتحنۃ: 8,9 ) ” یعنی جو لوگ تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کرتے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، ان کے ساتھ احسان و سلوک اور عدل و انصاف کا برتاؤ کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔ اللہ تو صرف انہی لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو دین کے بارے میں تم سے لڑے اور جنہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں مخالفوں کی مدد کی، جو ایسے لوگوں سے دوستی رکھے گا، وہ ظالموں میں سے ہوگا “۔ اور جو غیرمسلم مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں اور ان کو مٹانے، جلانے اور برباد کرنے کے درپے رہتے ہیں ان سے دوستی قطعاً حرام ہے اور ان کے قتل کے جواب میں قتل و قتال کے احکام موجود ہیں۔ لیکن ایسی جنگ میں بھی ظلم و زیادتی کی ممانعت موجود ہے۔ ارشاد ہے۔ <قرآن> وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولاتعتدوا ان اللہ لایحب المعتدین اور جو تم سے لڑیں تم بھی اللہ کے راستے میں ان سے لڑو، مگر کسی قسم کی زیادتی نہ کرو، اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جہاد کے متعلق جو تفصیل لکھی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دشمن سے جہاد تلوار، اسلحہ کے ذریعہ صرف اسی وقت ضروری ہے جبکہ مسلمانوں پر کفار زیادتی و دشمنی کا کھلم کھلا رویہ اختیار کئے ہوئے ہوں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ” مجموعہ رسائل تحت قتال الکفار “ میں صراحت کی ہے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے لااکراہ فی الدین دین میں زبردستی نہیں ہے۔ فلوکان الکافر یقتل حتیٰ یسلم لکان ہذا اعظم الاکراہ علی الدین پس اگر مسئلہ شرعی یہ ہو کہ جب کافر مسلمان نہ ہو تو اس کو قتل کردیا جائے تو مذہب پر جبر و اکراہ کی اس سے بڑی شکل اور کیا ہے؟ اسلام کا مقصد محض کافروں کو قتل کرڈالنا اور ان کے اموال و جائیداد کو حاصل کرلینا نہیں ہے بلکہ جہاد کا مطلب استیلاءاسلام ہے جو دین حق ہے اور دراصل حقیقتاً دین و دنیا کا اعتدال و توازن اسلام کے نظام میں مضمر ہے۔ اس کو تمام عالم میں عام کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے الذین اٰمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیاءالشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا اسی معنی میں دوسری جگہ ارشاد ہے وقتلوہم حتي لا تکون فتن ویکون الدین للہ فان النتہوا فلا عدوان الا علي الظلمین ( البقرہ: 193 ) یعنی اور ان سے جہاد کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے ( اور دین اللہ ہی کا ہوجائے ) پس اگر وہ باز آجائیں، تو پھر زیادتی نہیں کرنا ہے مگر ظالموں پر۔ اگر اسلام کا مقصد محض قتال کفار ہوتا تو پھر عورتوں، بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور گوشہ گیر فقیروں کو قتال کے حکم سے کیوں مستثنیٰ کیا جاتا؟ کیوں کہ علت کفر تو سب میں مشترک ہے۔ حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت جابرص سے اسی طرح مروی ہے کہ لاتقتلواذریۃ ولاعسیفا ولاشیخا فانیا ولاطفلا صغیراً ولا امراۃ یعنی چھوٹے بچوں، بیگار میں پکڑے ہوئے مزدوروں، کمزوروں اور بڈھوں، نابالغ لڑکوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔ ( السیاسۃ الشرعیۃ ص: 51۔ و مؤطا معہ مسویٰ جلد ثانی ص 132 ) اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرص نے امیر لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایاتھا کہ دیکھو خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا اور دشمن کا ہاتھ پاؤں مت کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا اور ان لوگوں کو کچھ نہ کہنا جنہوں نے اپنی زندگی عبادت گاہوں، گرجاگھروں میں وقف کردی ہے۔ ( صدیق اکبر مؤلفہ مولانا سعید احمد اکبرآبادی، بحوالہ طبری ص329 ) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اگر کفرکا اقتدار وجہ فتنہ بن جائے تو فتنہ کو ختم کرنے کے لیے قتال ضروری ہے ورنہ نہیں۔ فرماتے ہیں۔ فمن لم یمنع المسلمین من اقامۃ الدین الاسلام لم یکن مضرۃ کفرہ الاعلی نفسہ ( السیاسۃ الشرعیۃ ابن تیمیہ، ص: 59 ) جزیہ بھی اسلام کے اقتدار و بالادستی کو تسلیم کرنے کی غرض سے ہے، ورنہ محض تحصیل خراج و جزیہ اسلام کا ہرگز مقصد نہ تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خراسان کے عامل جراح بن عبداللہ کو اس لیے معطل کردیا کہ انہوں نے جزیہ کو کم دیکھ کر نومسلموں سے کہا کہ تم لوگ اس لیے اسلام لے آئے ہو کہ جزیہ سے بچ جاؤ۔ یہ بات حضرت عمر بن عبدالعزیز تک پہنچی تو عامل کو معزول کرتے ہوئے ایک سنہرا مقولہ تحریر فرمایا کہ ” حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں دعوت حق کے لیے بھیجے گئے تھے۔ آپ خراج و جزیہ کے محصل بناکر نہیں بھیجے گئے تھے “۔ ( البدایہ والنہایہ جلد تاسع ص188 ) بہرحال اسلام کا مقصد حصول اقتدار و استیلاءصرف اس لیے ہے تاکہ دین و دنیا میں اعتدال و توازن اور امن و امان قائم رہے اور نظام اسلام کے ذریعہ اقوام عالم کو سکون قلب اور امن و استقلال کے ساتھ زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہوں “۔