‌صحيح البخاري - حدیث 3161

كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابٌ: إِذَا وَادَعَ الإِمَامُ مَلِكَ القَرْيَةِ، هَلْ يَكُونُ ذَلِكَ لِبَقِيَّتِهِمْ؟ صحيح حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: «غَزَوْنَا [ص:98] مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبُوكَ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ، وَكَسَاهُ بُرْدًا، وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3161

کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں باب : اگر بستی کے حاکم سے صلح ہوجائے تو بستی والوں سے بھی صلح سمجھی جائے گی ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ، ان سے عمروبن یحییٰ نے ، ان سے عباس ساعدی نے اور ان سے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم غزوہ تبوک میں شریک تھے ۔ ایلہ کے حاکم ( یوحنا بن روبہ ) نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سفید خچر بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک چادر بطور خلعت کے اور ایک تحریر کے ذریعہ اس کے ملک پر اسے ہی حاکم باقی رکھا ۔
تشریح : یہ روایت ابن اسحاق میں یوں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو جارہے تھے، تو یوحنا بن روبہ ایلہ کا حاکم آپ کی خدمت میں آیا۔ اس نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور آپ نے اس سے صلح کرکے سند امان لکھ کر دے دی، اس سے ترجمہ باب یوں نکلا کہ آپ نے یوحنا سے صلح کی تو سارے ایلہ والے امن اور صلح میں آگئے۔ یہ روایت ابن اسحاق میں یوں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کو جارہے تھے، تو یوحنا بن روبہ ایلہ کا حاکم آپ کی خدمت میں آیا۔ اس نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور آپ نے اس سے صلح کرکے سند امان لکھ کر دے دی، اس سے ترجمہ باب یوں نکلا کہ آپ نے یوحنا سے صلح کی تو سارے ایلہ والے امن اور صلح میں آگئے۔