‌صحيح البخاري - حدیث 3160

كِتَابُ الجِزْيَةِ بَابُ الجِزْيَةِ وَالمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الحَرْبِ صحيح فَقَالَ النُّعْمَانُ: رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُنَدِّمْكَ، وَلَمْ يُخْزِكَ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ القِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الأَرْوَاحُ، وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3160

کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں باب : جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے ۔ اور اس نے ( لڑائی میں دیر کرنے پر ) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا ۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے ، ہوائیں چلنے لگیں ، نمازوں کا وقت آن پہنچے ۔
تشریح : تشریح : ہوا یہ کہ لشکر اسلام حضرت عمرص کی خلافت میں ایران کی طرف چلا۔ جب قادسیہ میں پہنچا تو یزدگردبادشاہ ایران نے ایک فوج گراں اس کے مقابلے کے لیے روانہ کی۔14ھ میں یہ جنگ واقع ہوئی، جس میں مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا، طلیحہ اسدی اور عمروبن معدیکرب اور ضرار بن خطاب جیسے اسلامی بہادر شہید ہوگئے۔ بعدمیں اللہ پاک نے کافروں پر ایک تیز آندھی بھیجی۔ ان کے ڈیرے خیمے سب اکھڑ گئے، ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کیا، وہ بھاگے ، ان کا نامی گرامی پہلوان رستم ثانی مارا گیا اور مسلمانی فوج تعاقب کرتی ہوئی مدائن پہنچی، وہاں کا رئیس ہرمزان محصور ہوگیا، آخر اس نے امان چاہی اور خوشی سے مسلمان ہوگیا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو فوج کے سردار تھے، انہوں نے ان کو حضرت عمرص کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی عزت افزائی فرمائی، اسے عقلمند اور صاحب تدبیر پاکر اس کو مشیر خاص بنایا، چنانچہ ہرمزان نے کسریٰ کے بارے میں صحیح مشورہ دیا۔ ہرچند وہ روم کا بادشاہ تھا مگر اس زمانے میں کسریٰ کا مرتبہ سب بادشاہوں سے زیادہ تھا، اس کا تباہ ہونا ایران اور روم دونوں کے زوال کا سبب بنا، کسریٰ کی فوج کا سردار ذوالجناحین نامی سردار تھا، جو خچر سے گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا۔ سخت جنگ کے بعد کافروں کو ہزیمت ہوئی، مزید تفصیل آگے آئے گی۔ تشریح : ہوا یہ کہ لشکر اسلام حضرت عمرص کی خلافت میں ایران کی طرف چلا۔ جب قادسیہ میں پہنچا تو یزدگردبادشاہ ایران نے ایک فوج گراں اس کے مقابلے کے لیے روانہ کی۔14ھ میں یہ جنگ واقع ہوئی، جس میں مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا، طلیحہ اسدی اور عمروبن معدیکرب اور ضرار بن خطاب جیسے اسلامی بہادر شہید ہوگئے۔ بعدمیں اللہ پاک نے کافروں پر ایک تیز آندھی بھیجی۔ ان کے ڈیرے خیمے سب اکھڑ گئے، ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کیا، وہ بھاگے ، ان کا نامی گرامی پہلوان رستم ثانی مارا گیا اور مسلمانی فوج تعاقب کرتی ہوئی مدائن پہنچی، وہاں کا رئیس ہرمزان محصور ہوگیا، آخر اس نے امان چاہی اور خوشی سے مسلمان ہوگیا۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو فوج کے سردار تھے، انہوں نے ان کو حضرت عمرص کے پاس بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی عزت افزائی فرمائی، اسے عقلمند اور صاحب تدبیر پاکر اس کو مشیر خاص بنایا، چنانچہ ہرمزان نے کسریٰ کے بارے میں صحیح مشورہ دیا۔ ہرچند وہ روم کا بادشاہ تھا مگر اس زمانے میں کسریٰ کا مرتبہ سب بادشاہوں سے زیادہ تھا، اس کا تباہ ہونا ایران اور روم دونوں کے زوال کا سبب بنا، کسریٰ کی فوج کا سردار ذوالجناحین نامی سردار تھا، جو خچر سے گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا۔ سخت جنگ کے بعد کافروں کو ہزیمت ہوئی، مزید تفصیل آگے آئے گی۔