كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ المِقْدَامِ، حَدَّثَنَا الفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ أَجْلَى اليَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الحِجَازِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى أَهْلِ خَيْبَرَ، أَرَادَ أَنْ يُخْرِجَ اليَهُودَ مِنْهَا، وَكَانَتِ الأَرْضُ لَمَّا ظَهَرَ عَلَيْهَا لِلْيَهُودِ وَلِلرَّسُولِ وَلِلْمُسْلِمِينَ، فَسَأَلَ اليَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتْرُكَهُمْ عَلَى أَنْ يَكْفُوا العَمَلَ وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُقِرُّكُمْ عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا»، فَأُقِرُّوا حَتَّى أَجْلاَهُمْ عُمَرُ فِي إِمَارَتِهِ إِلَى تَيْمَاءَ، وَأَرِيحَا
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
مجھ سے احمد بن مقدام نے بیان کیا ، کہا ہم سے فضل بن سلیمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال کر دوسری جگہ بسادیا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر فتح کیا تو آپ کا بھی ارادہ ہوا تھا کہ یہودیوں کو یہاں سے نکال دیا جائے ۔ جب آپ نے فتح پائی تو اس وقت وہاں کی کچھ زمین یہودیوں کے قبضے میں ہی تھی ۔ اور اکثر زمین پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں کے قبضے میں تھی ۔ لیکن پھر یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی ، آپ زمین انہیں کے پاس رہنے دیں ۔ وہ ( کھیتوں اور باغوں میں ) کام کیا کریں گے ۔ اور آدھی پیداوار لیں گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اچھا جب تک ہم چاہیں گے اس وقت تک کے لیے تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے ۔ چنانچہ یہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے دور خلافت میں ( مسلمانوں کے خلاف ان کے فتنوں اور سازشوں کی وجہ سے یہود خیبر کو ) تیماء یا اریحا کی طرف نکال دیا تھا ۔
تشریح :
حافظ صاحب فرماتے ہیں والمراد بقولہ لما ظہر علیہ فتح اکثرہا قبل ان یسالہ الیہود و ان یصالحوہ فکانت للیہود کلہا صالحہم علی ان یسلمو لہ الارض کانت الارض للہ ولرسولہ و قال ابن المنیر احادیث الباب مطابقۃ للترجمۃ الاہذا الا خیر فلیس فیہ للعطاءذکر ولکن فیہ ذکر جہات قدعلم من مکان اٰخرانہا کانت جہات عطاءفبہذا الطریق تدخل تحت الترجمۃ واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی مراد یہ ہے کہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہود سے معاہدہ ہوگیا تھا۔ پہلے وہ سب زمینیں ان ہی کی تھیں۔ بعد میں غلبہ اسلام کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگئی تھیں۔ اس میں ایک طرح سے ان زمینوں کو بطور بخشش دینا بھی مقصود ہے۔ ترجمۃ الباب سے اسی میں مطابقت ہے۔ اس حدیث سے معاملات کے بہت سے مسائل نکلتے ہیں جن کو حضرت امام نے جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔
حافظ صاحب فرماتے ہیں والمراد بقولہ لما ظہر علیہ فتح اکثرہا قبل ان یسالہ الیہود و ان یصالحوہ فکانت للیہود کلہا صالحہم علی ان یسلمو لہ الارض کانت الارض للہ ولرسولہ و قال ابن المنیر احادیث الباب مطابقۃ للترجمۃ الاہذا الا خیر فلیس فیہ للعطاءذکر ولکن فیہ ذکر جہات قدعلم من مکان اٰخرانہا کانت جہات عطاءفبہذا الطریق تدخل تحت الترجمۃ واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی مراد یہ ہے کہ ارض خیبر کو فتح کرنے کے بعد یہود سے معاہدہ ہوگیا تھا۔ پہلے وہ سب زمینیں ان ہی کی تھیں۔ بعد میں غلبہ اسلام کے بعد وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہوگئی تھیں۔ اس میں ایک طرح سے ان زمینوں کو بطور بخشش دینا بھی مقصود ہے۔ ترجمۃ الباب سے اسی میں مطابقت ہے۔ اس حدیث سے معاملات کے بہت سے مسائل نکلتے ہیں جن کو حضرت امام نے جگہ جگہ بیان فرمایا ہے۔