كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ، آثَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسًا فِي القِسْمَةِ، فَأَعْطَى الأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ مِائَةً مِنَ الإِبِلِ، وَأَعْطَى عُيَيْنَةَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَأَعْطَى أُنَاسًا مِنْ أَشْرَافِ العَرَبِ فَآثَرَهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي القِسْمَةِ، قَالَ رَجُلٌ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذِهِ القِسْمَةَ مَا عُدِلَ فِيهَا، وَمَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: «فَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ يَعْدِلِ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، رَحِمَ اللَّهُ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابووائل نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حنین کی لڑائی کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غنیمت کی) تقسیم میں بعض لوگوں کو زیادہ دیا ۔ جیسے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ دئیے ، اتنے ہی اونٹ عیینہ بن حصین رضی اللہ عنہ کو دئیے اور کئی عرب کے اشراف لوگوں کو اسی طرح تقسیم میں زیادہ دیا ۔ اس پر ایک شخص ( معتب بن قشیر منافق ) نے کہا ، کہ خدا کی قسم ! اس تقسیم میں نہ تو عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور نہ اللہ کی خوشنودی کا خیال ہوا ۔ میں نے کہا کہ واللہ ! اس کی خبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دوں گا ۔ چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور آپ کو اس کی خبر دی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی عدل نہ کرے تو پھر کون عدل کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ ان کو لوگوں کے ہاتھ اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی لیکن انہوں نے صبر کیا ۔
تشریح :
آپ نے اس منافق کو سزا نہیں دلوائی، کیوں کہ وہ اپنے قول سے انکاری ہوگیا ہوگا یا صرف ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی گواہی تھی اور ایک کی گواہی پر جرم ثابت نہیں ہو سکتا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سزا دینا مصلحت نہ سمجھا ہو۔ قال القسطلانی لم ینقل انہ صلی اللہ علیہ وسلم عاقبہ وفی المقاصد قال قاضی عیاض حکم الشرع ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کفر و یقتل ولکنہ لم یقتل تالیفا لغیرہم ولئلا یشتہر فی الناس انہ صلی اللہ علیہ وسلم یقتل اصحابہ فینفروا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا کافر ہوجاتا ہے۔ جس کی سزا شرعاً قتل ہے مگر آپ نے مصلحتاً اس کو نہیں مارا۔
آپ نے اس منافق کو سزا نہیں دلوائی، کیوں کہ وہ اپنے قول سے انکاری ہوگیا ہوگا یا صرف ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی گواہی تھی اور ایک کی گواہی پر جرم ثابت نہیں ہو سکتا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سزا دینا مصلحت نہ سمجھا ہو۔ قال القسطلانی لم ینقل انہ صلی اللہ علیہ وسلم عاقبہ وفی المقاصد قال قاضی عیاض حکم الشرع ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کفر و یقتل ولکنہ لم یقتل تالیفا لغیرہم ولئلا یشتہر فی الناس انہ صلی اللہ علیہ وسلم یقتل اصحابہ فینفروا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والا کافر ہوجاتا ہے۔ جس کی سزا شرعاً قتل ہے مگر آپ نے مصلحتاً اس کو نہیں مارا۔