كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَ «عَلَيَّ اعْتِكَافُ يَوْمٍ فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَفِيَ بِهِ»، قَالَ: وَأَصَابَ عُمَرُ جَارِيَتَيْنِ مِنْ سَبْيِ حُنَيْنٍ، فَوَضَعَهُمَا فِي بَعْضِ بُيُوتِ مَكَّةَ، قَالَ: «فَمَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سَبْيِ حُنَيْنٍ»، فَجَعَلُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، انْظُرْ مَا هَذَا؟ فَقَالَ: «مَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّبْيِ»، قَالَ: اذْهَبْ فَأَرْسِلِ الجَارِيَتَيْنِ، قَالَ نَافِعٌ: وَلَمْ يَعْتَمِرْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الجِعْرَانَةِ وَلَوِ اعْتَمَرَ لَمْ يَخْفَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، وَزَادَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: مِنَ الخُمُسِ، وَرَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ: فِي النَّذْرِ وَلَمْ يَقُلْ يَوْمٍ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے ، ان سے نافع نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! زمانہ جاہلیت ( کفر ) میں میں نے ایک دن کے اعتکاف کی منت مانی تھی ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پورا کرنے کا حکم فرمایا ۔ نافع نے بیان کیا کہ حنین کے قیدیوں میں سے عمر رضی اللہ عنہ کو دو باندیاں ملی تھیں ۔ تو آپ نے انہیں مکہ کے کسی گھر میں رکھا ۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں پر احسان کیا ( اور سب کو مفت آزاد کر دیا ) تو گلیوں میں وہ دوڑنے لگے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، عبداللہ ! دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر احسان کیا ہے ( اور حنین کے تمام قیدی مفت آزاد کر دئیے گئے ہیں ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر جا ان دونوں لڑکیوں کو بھی آزاد کر دے ۔ نافع نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام جعرانہ سے عمرہ کا احرام نہیں باندھا تھا ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے عمرہ کا احرام باندھتے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ ضرور معلوم ہوتا اور جریر بن حازم نے جو ایوب سے روایت کی ، انہوں نے نافع سے ، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ، اس میں یوں ہے کہ ( وہ دونوں باندیاں جو عمر رضی اللہ عنہ کو ملی تھیں ) خمس میں سے تھیں ۔ ( اعتکاف سے متعلق یہ روایت ) معمر نے ایوب سے نقل کی ہے ، ان سے نافع نے ، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نذر کا قصہ جو روایت کیا ہے اس میں ایک دن کا لفظ نہیں ہے ۔
تشریح :
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے دو لونڈیاں بطور احسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیں۔ روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جعرانہ سے عمرہ کا احرام نہ باندھنا مذکور ہے۔ حالانکہ دوسرے بہت سے لوگوں نے نقل کیا ہے کہ آپ جب حنین اورطائف سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور اثبات نفی پر مقدم ہے۔ ممکن ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس کی خبر ہو لیکن انہوں نے نافع سے نہ بیان کیا ہو، اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کوئی شخص حالت کفر میں کوئی نیک کام کرنے کی نذر مانے تو اسلام لانے کے بعد وہ نذر پوری کرنی ہوگی۔ حنین کے قیدیوں کو بھی بلا معاوضہ آزاد کردینا انسانیت پروری کے سلسلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت مسلمہ ہمیشہ نازاں رہے گی۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے دو لونڈیاں بطور احسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیں۔ روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جعرانہ سے عمرہ کا احرام نہ باندھنا مذکور ہے۔ حالانکہ دوسرے بہت سے لوگوں نے نقل کیا ہے کہ آپ جب حنین اورطائف سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور اثبات نفی پر مقدم ہے۔ ممکن ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس کی خبر ہو لیکن انہوں نے نافع سے نہ بیان کیا ہو، اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ کوئی شخص حالت کفر میں کوئی نیک کام کرنے کی نذر مانے تو اسلام لانے کے بعد وہ نذر پوری کرنی ہوگی۔ حنین کے قیدیوں کو بھی بلا معاوضہ آزاد کردینا انسانیت پروری کے سلسلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس پر امت مسلمہ ہمیشہ نازاں رہے گی۔