كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعْطِي المُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الخُمُسِ وَنَحْوِهِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ [ص:93]، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى»، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، لاَ أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَدْعُو حَكِيمًا لِيُعْطِيَهُ العَطَاءَ فَيَأْبَى أَنْ يَقْبَلَ مِنْهُ شَيْئًا، ثُمَّ إِنَّ عُمَرَ دَعَاهُ لِيُعْطِيَهُ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ المُسْلِمِينَ إِنِّي أَعْرِضُ عَلَيْهِ حَقَّهُ الَّذِي قَسَمَ اللَّهُ لَهُ مِنْ هَذَا الفَيْءِ فَيَأْبَى أَنْ يَأْخُذَهُ، فَلَمْ يَرْزَأْ حَكِيمٌ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ شَيْئًا بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تُوُفِّيَ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : تالیف قلوب کے لیے آنحضرت ﷺ کا بعضے کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ، ان سے زہری نے ، ان سے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ روپیہ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمایا ، پھر دوبارہ میں نے مانگا اور اس مرتبہ بھی آپ نے عطا فرمایا ، پھر ارشاد فرمایا ، حکیم ! یہ مال دیکھنے میں سرسبز بہت میٹھا اور مزیدار ہے لیکن جو شخص اسے دل کی بے طمعی کے ساتھ لے اس کے مال میں تو برکت ہوتی ہے اور جو شخص اسے لالچ اور حرص کے ساتھ لے تو اس کے مال میں برکت نہیں ہوتی ، بلکہ اس کی مثال اس شخص جیسی ہے جو کھائے جاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور اوپر کا ہاتھ ( دینے والا ) نیچے کے ہاتھ ( لینے والے ) سے بہتر ہوتا ہے ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کے بعد اب میں کسی سے کچھ بھی نہیں مانگوں گا ، یہاں تک کہ اس دنیا میں سے چلا جاوں گا ۔ چنانچہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں دینے کے لیے بلاتے ، لیکن وہ اس میں سے ایک پیسہ بھی لینے سے انکار کردیتے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ( اپنے زمانہ خلافت میں ) انہیں دینے کے لیے بلاتے اور ان سے بھی لینے سے انہوں نے انکار کردیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ مسلمانو ! میں انہیں ان کا حق دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے فئے کے مال سے ان کا حصہ مقرر کیا ہے ۔ لیکن یہ اسے بھی قبول نہیں کرتے ۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہوں نے کسی سے کوئی چیز نہیں لی ۔
تشریح :
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نئے نئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، آپ نے ان کی تالیف قلب کے لیے ان کو دو دو بار روپیہ دیا۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی سن کر حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے تاحیات اپنے وعدے کو نبھایا اوراپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس کو اس طرح مفت خوری کی عادت نہ ہوجائے۔ مردان حق ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو اس دنیا میں کبریت احمر کا حکم رکتھے ہیں۔ الا ماشاءاللہ۔ آج کی دنیا میں جسے ایسی باتیں کرتا پاؤ اس کے اندر جائزہ لوگے تو معلوم ہوگا کہ یہی خود دنیا کا بدترین حریص ہے۔ الا ماشاءاللہ۔ یہی حال بہت سے مدعیان تدین کا ہے جو ظاہر میں بڑے حق گو اور اندرون خانہ بدترین بدمعاملہ ثابت ہوتے ہیں۔ الامن رحمہ اللہ۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نئے نئے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، آپ نے ان کی تالیف قلب کے لیے ان کو دو دو بار روپیہ دیا۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی سن کر حضرت حکیم رضی اللہ عنہ نے تاحیات اپنے وعدے کو نبھایا اوراپنا جائز حق بھی چھوڑدیا کہ کہیں نفس کو اس طرح مفت خوری کی عادت نہ ہوجائے۔ مردان حق ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جو اس دنیا میں کبریت احمر کا حکم رکتھے ہیں۔ الا ماشاءاللہ۔ آج کی دنیا میں جسے ایسی باتیں کرتا پاؤ اس کے اندر جائزہ لوگے تو معلوم ہوگا کہ یہی خود دنیا کا بدترین حریص ہے۔ الا ماشاءاللہ۔ یہی حال بہت سے مدعیان تدین کا ہے جو ظاہر میں بڑے حق گو اور اندرون خانہ بدترین بدمعاملہ ثابت ہوتے ہیں۔ الامن رحمہ اللہ۔