كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ غَنِيمَةً بِالْجِعْرَانَةِ، إِذْ قَالَ لَهُ رَجُلٌ: اعْدِلْ، فَقَالَ لَهُ: «لَقَدْ شَقِيتُ إِنْ لَمْ أَعْدِلْ»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص ذوالخویصرہ نے آپ سے کہا ، انصاف سے کام لیجئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر میں بھی انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہوا ۔
تشریح :
شقیت کا لفظ دونوں طرح منقول ہے یعنی بصیغہ حاضر اور بصیغہ متکلم، پہلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں ہی غیرعادل ہوں تو پھر تو تو بدبخت ہوا کیو ں کہ تو میرا تابع ہے۔ جب مرشد اور متبوع عادل نہ ہو تو مرید کا کیا ٹھکانا اور یہ حدیث آئندہ پورے طور سے مذکور ہوگی۔ باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے اپنی رائے کے موافق کسی کو کم یازیادہ دیا ہوگا، جب ذوالخویصرہ نے یہ اعتراض کیا، کیوں کہ باقی چار حصے تو برابر سب مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں۔ مگر اس کا اعتراض غلط تھا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ایسا گمان کیا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بنی نوع انسان میں کوئی عادل منصف پیدا نہیں ہوا، نہ ہوگا۔
شقیت کا لفظ دونوں طرح منقول ہے یعنی بصیغہ حاضر اور بصیغہ متکلم، پہلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں ہی غیرعادل ہوں تو پھر تو تو بدبخت ہوا کیو ں کہ تو میرا تابع ہے۔ جب مرشد اور متبوع عادل نہ ہو تو مرید کا کیا ٹھکانا اور یہ حدیث آئندہ پورے طور سے مذکور ہوگی۔ باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس میں سے اپنی رائے کے موافق کسی کو کم یازیادہ دیا ہوگا، جب ذوالخویصرہ نے یہ اعتراض کیا، کیوں کہ باقی چار حصے تو برابر سب مجاہدین میں تقسیم ہوتے ہیں۔ مگر اس کا اعتراض غلط تھا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ایسا گمان کیا۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بنی نوع انسان میں کوئی عادل منصف پیدا نہیں ہوا، نہ ہوگا۔