كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ قَدْ جَاءَنِي مَالُ البَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا»، فَلَمْ يَجِئْ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ مَالُ البَحْرَيْنِ، أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا، فَحَثَا لِي ثَلاَثًا، - وَجَعَلَ سُفْيَانُ يَحْثُو بِكَفَّيْهِ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ لَنَا: هَكَذَا قَالَ لَنَا ابْنُ المُنْكَدِرِ -، وَقَالَ مَرَّةً فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، فَسَأَلْتُ، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَقُلْتُ: سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ [ص:91] فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي قَالَ: قُلْتَ: تَبْخَلُ عَنِّي؟ مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ، قَالَ سُفْيَانُ، وَحَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرٍ، فَحَثَا لِي حَثْيَةً وَقَالَ: عُدَّهَا فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، قَالَ: فَخُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ، وَقَالَ يَعْنِي ابْنَ المُنْكَدِرِ: وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ البُخْلِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ‘ کہا ہم سے محمد بن منکدر نے ‘ اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب بحرین سے وصول ہو کر میرے پاس مال آئے گا تو میں تمہیں اس طرح اس طرح ‘ اس طرح ( تین لپ ) دوں گا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور بحرین کا مال اس وقت تک نہ آیا ۔ پھر جب وہاں سے مال آیا تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی نے اعلان کیا کہ جس کا بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض ہو یا آپ کا کوئی وعدہ ہو تو ہمارے پاس آئے ۔ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ چنانچہ انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دیا ۔ سفیان بن عیینہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کرکے ( لپ بھرنے کی ) کیفیت بتائی پھر ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ ابن منکدر نے بھی ہم سے اسی طرح بیان کیا تھا ۔ اور ایک مرتبہ سفیان نے ( سابقہ سند کے ساتھ ) بیان کیا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں حاضر ہوا ‘ اور اس مرتبہ بھی مجھے انہوں نے کچھ نہیں دیا ۔ پھر میں تیسری مرتبہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے ایک مرتبہ آپ سے مانگا اور آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ دوبارہ مانگا ‘ پھر بھی آ پ نے عنایت نہیں فرمایا اور پھر مانگا لیکن آپ نے عنایت نہیں فرمایا ۔ اب یا آپ مجھے دیجئے یا پھر میرے بارے میں بخل سے کام لیجئے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم کہتے ہو کہ میرے معاملے میں بخل سے کام لیتا ہے ۔ حالانکہ تمہیں دینے سے جب بھی میں نے منہ پھیرا تو میرے دل میں یہ بات ہوتی تھی کہ تمہیں کبھی نہ کبھی دینا ضرور ہے ۔ ، سفیان نے بیان کیا کہ ہم سے عمرو نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن علی نے اور ان سے جابر نے ‘ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا اور فرمایا کہ اسے شمار کر میں نے شمار کیا تو پانچ کی تعداد تھی ‘ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘ کہ اتنا ہی دو مرتبہ اور لے لے ۔ اور ابن المنکدر نے بیان کیا ( کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ) بخل سے زیادہ بدترین اور کیا بیماری ہو سکتی ہے ۔
تشریح :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پہلی بار میں نہ دینا کسی مصلحت سے تھا تاکہ جابر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوجائے اس کا دینا کچھ ان پر بطور قرض کے لازم نہیں ہے بلکہ بطور تبرع کے دینا ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا پہلی بار میں نہ دینا کسی مصلحت سے تھا تاکہ جابر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوجائے اس کا دینا کچھ ان پر بطور قرض کے لازم نہیں ہے بلکہ بطور تبرع کے دینا ہے۔