كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَرِيَّةً فِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِيرَةً، فَكَانَتْ سِهَامُهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی لشکر کے ساتھ تھے ۔ غنیمت کے طور پر اونٹوں کی ایک بڑی تعداد اس لشکر کو ملی ۔ اس لئے اس کے ہر سپاہی کو حصہ میں بھی بارہ بارہ گیارہ گیارہ اونٹ ملے تھے اور ایک ایک اونٹ اور انعام میں ملا ۔
تشریح :
اور ظاہر ہے کہ لشکر کے سردار نے یہ انعام خمس میں سے دیا ہوگا۔ گویہ فعل لشکر کے سردار کا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہوگا اور اس پر سکوت فرمایا تو حجت ہوا۔
اور ظاہر ہے کہ لشکر کے سردار نے یہ انعام خمس میں سے دیا ہوگا۔ گویہ فعل لشکر کے سردار کا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہوگا اور اس پر سکوت فرمایا تو حجت ہوا۔