كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي القَاسِمُ بْنُ عَاصِمٍ الكُلَيْبِيُّ، - وَأَنَا لِحَدِيثِ القَاسِمِ أَحْفَظُ - عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى، فَأُتِيَ - ذَكَرَ دَجَاجَةً -، وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مِنَ المَوَالِي، فَدَعَاهُ لِلطَّعَامِ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ، فَحَلَفْتُ لاَ آكُلُ، فَقَالَ: هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْكُمْ عَنْ ذَاكَ، إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنَ الأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: «وَاللَّهِ لاَ أَحْمِلُكُمْ، وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ»، وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ، فَسَأَلَ عَنَّا فَقَالَ: «أَيْنَ النَّفَرُ الأَشْعَرِيُّونَ؟»، فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى، فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا: مَا صَنَعْنَا؟ لاَ يُبَارَكُ لَنَا، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: إِنَّا سَأَلْنَاكَ أَنْ تَحْمِلَنَا، فَحَلَفْتَ أَنْ لاَ تَحْمِلَنَا، أَفَنَسِيتَ؟ [ص:90] قَالَ: «لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ، وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ - إِنْ شَاءَ اللَّهُ - لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ، وَتَحَلَّلْتُهَا»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابو قلابہ نے بیان کیا اور ( ایوب نے ایک دوسری سند کے ساتھ اس طرح روایت کی ہے کہ ) مجھ سے قاسم بن عاصم کلیبی نے بیان کیا اور کہا کہ قاسم کی حدیث ( ابو قلابہ کی حدیث کی بہ نسبت ) مجھے زیادہ اچھی طرح یاد ہے ‘ زہدم سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے ( کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا ۔ بنی تمیم اللہ کے ایک آدمی سرخ رنگ والے وہاں موجود تھے ۔ غالباً موالی میں سے تھے ۔ انہیں بھی ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کھانے پر بلایا ‘ وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھالی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریب آجاؤ ( تمہاری قسم پر ) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں ‘ قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ تبوک کے لئے ) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اللہ کی قسم ! میں تمہارے لئے سواری کا انتظام نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آسکے ‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا ‘ اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہا ں ہیں ؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا ‘ خوب موٹے تازے اور فربہ ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عطیہ میں ہمارے لئے کوئی برکت نہیں ہوسکتی ۔ چنانچہ ہم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کرسکوں گا ۔ شاید آپ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو ‘ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا ‘ وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں ۔ اللہ کی قسم ! تم اس پر یقین رکھو کہ انشاءاللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں ‘ پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہوگی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا ۔
تشریح :
ابو موسیٰ کا یہ مطلب تھا کہ تو نے بھی جو قسم کھالی ہے کہ مرغی نہ کھاؤں گا یہ قسم اچھی نہیں ہے کہ مرغی حلال جانور ہے۔ فراغت سے کھا اور قسم کا کفارہ ادا کردے‘ باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریوں کو اپنے حصہ یعنی خمس میں سے یہ اونٹ دیئے۔ ابوموسیٰ اوران کے ساتھیوں نے یہ خیال کیا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو کہ میں تم کو سواریاں نہیں دینے کا اور ہم نے آپ کو یاد نہیں دلایا‘ گویا فریب سے ہم یہ اونٹ لے آئے‘ ایسے کا م میں بھلائی کیوں کر ہوسکتی ہے۔ اسی صفائی کے لئے انہوں نے مراجعت کی جس سے معاملہ صاف ہوگیا۔
ابو موسیٰ کا یہ مطلب تھا کہ تو نے بھی جو قسم کھالی ہے کہ مرغی نہ کھاؤں گا یہ قسم اچھی نہیں ہے کہ مرغی حلال جانور ہے۔ فراغت سے کھا اور قسم کا کفارہ ادا کردے‘ باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریوں کو اپنے حصہ یعنی خمس میں سے یہ اونٹ دیئے۔ ابوموسیٰ اوران کے ساتھیوں نے یہ خیال کیا کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو کہ میں تم کو سواریاں نہیں دینے کا اور ہم نے آپ کو یاد نہیں دلایا‘ گویا فریب سے ہم یہ اونٹ لے آئے‘ ایسے کا م میں بھلائی کیوں کر ہوسکتی ہے۔ اسی صفائی کے لئے انہوں نے مراجعت کی جس سے معاملہ صاف ہوگیا۔