‌صحيح البخاري - حدیث 3132

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الخُمُسَ لِنَوَائِبِ المُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الحَكَمِ، وَمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ: فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحَبُّ الحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا المَالَ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ»، وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَ آخِرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلاَءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُطَيِّبَ، فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ؟»، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّا لاَ نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ»، فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا، فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنَا عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3132

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لئے ہے ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث نے بیا ن کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ عروہ کہتے تھے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مالوں اور قیدیوں کی واپسی کا سوال کیا ‘ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ۔ ان دونوں چیزوں میں سے تم ایک ہی واپس لے سکتے ہو ۔ اپنے قیدی واپس لے لو یا پھر مال لے لو ‘ اور میں نے تمہارا انتظار بھی کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا اور جب یہ بات ان پر واضح ہوگئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی صرف ایک ہی چیز ( قیدی یا مال ) واپس کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدی ہی واپس لینا چاہتے ہیں ۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا ‘ اما بعد ! تمہارے یہ بھائی اب ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں ۔ اسی لئے جو شخص اپنی خوشی سے غنیمت کے اپنے حصے کے ( قیدی ) واپس کرنا چاہے وہ کر دے اور جوشخص چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہمیں جب اس کے بعد سب سے پہلی غنیمت ملے تو اس میں سے اس کے حصے کی ادائیگی کردی جائے تو وہ بھی اپنے قیدی واپس کردے ‘ ( اور جب ہمیں دوسرے غنیمت ملے گی تو اس کاحصہ ادا کردیا جائے گا ) اس پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم اپنی خوشی سے انہیں اپنے حصے واپس کردیتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کن لوگوں نے اپنی خوشی سے اجازت دی اور کن لوگوں نے نہیں دی ہے ۔ اس لئے سب لوگ ( اپنے خیموں میں ) واپس چلے جائیں اور تمہارے سردار لوگ تمہاری بات ہمارے سامنے آ کر بیان کریں ۔ سب لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آکر خبر دی کہ سب لوگ خوشی سے اجازت دیتے ہیں ۔ یہی وہ خبر ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہوئی ہے ۔
تشریح : قوم ہوازن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین دایہ حلیمہ سعدیہ تھیں۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ ہوازن والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں عرض کیا تھاآپ ان عورتوں پر احسان کیجئے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا کہ وہ اپنے اپنے حصہ کے لونڈی غلام ان کو واپس کردیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس حدیث میں کئی ایک تمدنی امور بھی بتلائے گئے ہیں جن میں اقوام میں نمائندگی کا اصول بھی ہے جسے اسلام نے سکھایا ہے اسی اصول پر موجودہ جمہوری طرز حکومت وجود میں آیا ہے۔ اس روایت کی سندمیں مروان بن حکم کا بھی نام آیا ہے‘ اس پر مولانا وحید الزمان مرحوم فرماتے ہیں: مروان نے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے‘ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ اس کے اعمال بہت خراب تھے اور اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت امام بخاری پر طعن کیا ہے کہا مروان سے روایت کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اکیلے مروان سے روایت نہیں کی‘ بلکہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ‘ جوصحابی ہیں‘ روایت کی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض براشخص حدیث کی روایت میں سچا اور باحتیاط ہوتا ہے تو محدثین اس سے روایت کرتے ہیں۔ اور کوئی شخص بہت نیک اور صالح ہوتاہے لیکن وہ عبادت یا دوسرے علم میں مصروف رہنے کہ وجہ سے حدیث کے الفاظ اور متن کا خوب خیال نہیں رکھتا‘ تومحدثین اس سے روایت نہیں کرتے یا اس کی روایت کو ضعیف جانتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مجتہدین عظام میں کچھ حضرات توایسے ہیں جن کا طریقہ کار استخراج و استنباط مسائل اجتہاد کے طریق پر تھا۔ کچھ فقہ اور حدیث ہر دو کے جامع تھے۔ بہر حال حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جگہ پر مجتہد مطلق ہیں۔ اگر وہ کسی جگہ مروان جیسے لوگوں کی مرویات نقل کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی اور معتبر شاہد کو بھی پیش کردیتے ہیں۔ جو ان کے کمال احتیاط کی دلیل ہے اور اس بنا پر ان پر طعن کرنا محض تعصب اور کورباطنی کا ثبوت دینا ہے۔ قوم ہوازن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین دایہ حلیمہ سعدیہ تھیں۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ ہوازن والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں عرض کیا تھاآپ ان عورتوں پر احسان کیجئے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا کہ وہ اپنے اپنے حصہ کے لونڈی غلام ان کو واپس کردیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس حدیث میں کئی ایک تمدنی امور بھی بتلائے گئے ہیں جن میں اقوام میں نمائندگی کا اصول بھی ہے جسے اسلام نے سکھایا ہے اسی اصول پر موجودہ جمہوری طرز حکومت وجود میں آیا ہے۔ اس روایت کی سندمیں مروان بن حکم کا بھی نام آیا ہے‘ اس پر مولانا وحید الزمان مرحوم فرماتے ہیں: مروان نے نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے‘ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی ہے۔ اس کے اعمال بہت خراب تھے اور اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت امام بخاری پر طعن کیا ہے کہا مروان سے روایت کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اکیلے مروان سے روایت نہیں کی‘ بلکہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ‘ جوصحابی ہیں‘ روایت کی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض براشخص حدیث کی روایت میں سچا اور باحتیاط ہوتا ہے تو محدثین اس سے روایت کرتے ہیں۔ اور کوئی شخص بہت نیک اور صالح ہوتاہے لیکن وہ عبادت یا دوسرے علم میں مصروف رہنے کہ وجہ سے حدیث کے الفاظ اور متن کا خوب خیال نہیں رکھتا‘ تومحدثین اس سے روایت نہیں کرتے یا اس کی روایت کو ضعیف جانتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مجتہدین عظام میں کچھ حضرات توایسے ہیں جن کا طریقہ کار استخراج و استنباط مسائل اجتہاد کے طریق پر تھا۔ کچھ فقہ اور حدیث ہر دو کے جامع تھے۔ بہر حال حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اپنی جگہ پر مجتہد مطلق ہیں۔ اگر وہ کسی جگہ مروان جیسے لوگوں کی مرویات نقل کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی اور معتبر شاہد کو بھی پیش کردیتے ہیں۔ جو ان کے کمال احتیاط کی دلیل ہے اور اس بنا پر ان پر طعن کرنا محض تعصب اور کورباطنی کا ثبوت دینا ہے۔