‌صحيح البخاري - حدیث 3127

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ قِسْمَةِ الإِمَامِ مَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ، وَيَخْبَأُ لِمَنْ لَمْ يَحْضُرْهُ أَوْ غَابَ عَنْهُ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَتْ لَهُ أَقْبِيَةٌ مِنْ دِيبَاجٍ، مُزَرَّرَةٌ بِالذَّهَبِ، فَقَسَمَهَا فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَعَزَلَ مِنْهَا وَاحِدًا لِمَخْرَمَةَ بْنِ نَوْفَلٍ، فَجَاءَ وَمَعَهُ ابْنُهُ المِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَامَ عَلَى البَابِ، فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ، فَأَخَذَ قَبَاءً، فَتَلَقَّاهُ بِهِ، وَاسْتَقْبَلَهُ بِأَزْرَارِهِ، فَقَالَ: «يَا أَبَا المِسْوَرِ [ص:87] خَبَأْتُ هَذَا لَكَ، يَا أَبَا المِسْوَرِ خَبَأْتُ هَذَا لَكَ»، وَكَانَ فِي خُلُقِهِ شِدَّةٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ المِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ، قَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةٌ، تَابَعَهُ اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3127

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : خلیفہ المسلمین کے پاس غیر لوگ جو تحائف بھیجیں ان کا بانٹ دینا اور ان میں سے جو لوگ موجود نہ ہوں ان کا حصہ چھپا کر محفوظ رکھنا ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیبا کی کچھ قبائیں تحفہ کے طور پر آئی تھیں ۔ جن میں سونے کی گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں ‘ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چند اصحاب میں تقسیم فرما دیا اور ایک قبا مخرمہ بن نوفل رضی اللہ عنہ کے لئے رکھ لی ۔ پھر مخرمہ رضی اللہ عنہ آئے اوران کے ساتھ ان کے صاحبزادے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میرا نام لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلالا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز سنی تو قباء لے کر باہر تشریف لائے اور اس کی گھنڈیاں ان کے سامنے کر دیں ۔ پھر فرمایا ابو مسور ! یہ قباء میں نے تمہارے لئے چھپا کر رکھ لی تھی ۔ مخرمہ رضی اللہ عنہ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے ۔ ابن علیہ نے ایوب کے واسطے سے یہ حدیث ( مرسلاً ہی ) روایت کی ہے ۔ اور حاتم بن وردان نے بیان کیا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کچھ قبائیں آئیں تھیں ‘ اس روایت کی متابعت لیث نے ابن ابی ملیکہ سے کی ہے ۔
تشریح : حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے ” باب شہادۃ الاعمی “ میں وصل کیا ہے۔ مخرمہ رضی اللہ عنہ میں طبعی غصہ تھا۔ جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔ اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔ حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے ” باب شہادۃ الاعمی “ میں وصل کیا ہے۔ مخرمہ رضی اللہ عنہ میں طبعی غصہ تھا۔ جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔ اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔