‌صحيح البخاري - حدیث 3126

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَنْ قَاتَلَ لِلْمَغْنَمِ، هَلْ يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ؟ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ، وَالرَّجُلُ يُقَاتِلُ لِيُذْكَرَ، وَيُقَاتِلُ لِيُرَى مَكَانُهُ، مَنْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «مَنْ قَاتَلَ، لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3126

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : اگر کوئی غنیمت حاصل کرنے کے لئے لڑے ) مگر نیت ترقی دین کی بھی ہو تو کیا ثواب کم ہوگا ؟ ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے غندر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے ‘ ان سے عمروبن مرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے ابو وائل سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک اعرابی ( لاحق بن ضمیرہ باہلی ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ایک شخص ہے جو غنیمت حاصل کرنے کے لئے جہاد میں شریک ہوا ‘ ایک شخص ہے جو اس لئے شرکت کرتا ہے کہ اس کی بہادری کے چرچے زبانوں پر آ جائیں ‘ ایک شخص اس لئے لڑتا ہے کہ اس کی دھاک بیٹھ جائے ‘ تو ان میں سے اللہ کے راستے میں کون سا ہو گا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ کہ جو شخص جنگ میں شرکت اس لئے کرے تاکہ اللہ کا کلمہ ( دین ) ہی بلند رہے ۔ فقط وہی اللہ کے راستے میں ہے ۔
تشریح : اسلامی جہاد کا مقصد وحید صرف شریعت الہیٰ کی روشنی میں ساری دنیا میں امن وامان قائم کرنا ہے‘ زمین یا دولت کا حاصل کرنا اسلامی جہاد کا منشا۔ ہرگز نہیں ہے۔ اس لئے تاریخ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ جن ملکوں نے اسلام کے مقاصد سے اشتراک کیا‘ ان ملکوں کے سربراہوں کو ان کی جگہ پر قائم رکھا گیا۔ حدیث ہذا میں مجاہدین اسلام کے لئے ہدایت ہے کہ وہ اموال غنیمت کے حصول کے ارادے سے ہرگز جہاد نہ کریں بلکہ ان کی نیت خالص اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی ہونی ضروری ہے۔ یوں بصورت فتح مال غنیمت بھی ان کو ملے گا جو ایک ضمنی چیز ہے۔ اسلامی جہاد کا مقصد وحید صرف شریعت الہیٰ کی روشنی میں ساری دنیا میں امن وامان قائم کرنا ہے‘ زمین یا دولت کا حاصل کرنا اسلامی جہاد کا منشا۔ ہرگز نہیں ہے۔ اس لئے تاریخ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ جن ملکوں نے اسلام کے مقاصد سے اشتراک کیا‘ ان ملکوں کے سربراہوں کو ان کی جگہ پر قائم رکھا گیا۔ حدیث ہذا میں مجاہدین اسلام کے لئے ہدایت ہے کہ وہ اموال غنیمت کے حصول کے ارادے سے ہرگز جہاد نہ کریں بلکہ ان کی نیت خالص اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی ہونی ضروری ہے۔ یوں بصورت فتح مال غنیمت بھی ان کو ملے گا جو ایک ضمنی چیز ہے۔