‌صحيح البخاري - حدیث 3125

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابٌ: الغَنِيمَةُ لِمَنْ شَهِدَ الوَقْعَةَ صحيح حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَوْلاَ آخِرُ المُسْلِمِينَ، مَا فَتَحْتُ قَرْيَةً إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ أَهْلِهَا، كَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3125

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : مال غنیمت ان لوگوں کو ملے گا جو جنگ میں حاضر ہوں ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو عبدالرحمٰن بن مہدی نے خبر دی ‘ انہیں امام مالک نے ‘ انہیں زید بن اسلم نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ‘ اگر مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کا خیال نہ ہوتا تو جو شہر بھی فتح ہوتا میں اسے فاتحوں میں اسی طرح تقسیم کر دیا کرتا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی تقسیم کی تھی ۔
تشریح : اکثر ائمہ کا فتویٰ ہے کہ مفتوحہ ملک کے لئے امام کو اختیار ہے خواہ تقسیم کردے خواہ خراجی ملک کے طور پررہنے دے۔ لیکن یہ خراج اسلامی قاعدے کے موافق مسلمانوں ہی پر خرچ کیا جائے ‘ یعنی محتاجوں‘ یتیموں کی خبر گیری‘ جہاد کے سامان‘ اور اسباب کی تیاری میں غرض ملک کا محاصل بادشاہ کی ملک نہیں ہے۔ بلکہ عام مسلمانوں اورغازیوں کا مال ہے۔ بادشاہ بھی بطور ایک سپاہی کے اس میں سے اپنا خرچ لے سکتا ہے۔ یہ شرعی نظام ہے مگر صد افسوس کہ آج یہ بیشتر اسلامی ممالک سے مفقود ہے۔ فلیبک علی الاسلام ان کان باکیا۔ اکثر ائمہ کا فتویٰ ہے کہ مفتوحہ ملک کے لئے امام کو اختیار ہے خواہ تقسیم کردے خواہ خراجی ملک کے طور پررہنے دے۔ لیکن یہ خراج اسلامی قاعدے کے موافق مسلمانوں ہی پر خرچ کیا جائے ‘ یعنی محتاجوں‘ یتیموں کی خبر گیری‘ جہاد کے سامان‘ اور اسباب کی تیاری میں غرض ملک کا محاصل بادشاہ کی ملک نہیں ہے۔ بلکہ عام مسلمانوں اورغازیوں کا مال ہے۔ بادشاہ بھی بطور ایک سپاہی کے اس میں سے اپنا خرچ لے سکتا ہے۔ یہ شرعی نظام ہے مگر صد افسوس کہ آج یہ بیشتر اسلامی ممالک سے مفقود ہے۔ فلیبک علی الاسلام ان کان باکیا۔