‌صحيح البخاري - حدیث 3115

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ} [الأنفال: 41] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُلاَمٌ فَسَمَّاهُ القَاسِمَ، فَقَالَتِ الأَنْصَارُ لاَ نَكْنِيكَ أَبَا القَاسِمِ، وَلاَ نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:85] فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وُلِدَ لِي غُلاَمٌ، فَسَمَّيْتُهُ القَاسِمَ فَقَالَتِ الأَنْصَارُ: لاَ نَكْنِيكَ أَبَا القَاسِمِ، وَلاَ نُنْعِمُكَ عَيْنًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْسَنَتِ الأَنْصَارُ، سَمُّوا بِاسْمِي وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي، فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3115

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : سورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو ، بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے یعنی رسو ل اللہ ﷺ اس کی تقسیم کریں گے ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے ‘ ان سے ابو سالم نے ‘ ان سے ابوالجعد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام قاسم رکھا ‘ انصار کہنے لگے کہ ہم تمہیں ابو القاسم کہہ کر کبھی نہیں پکاریں گے اور ہم تمہاری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے یہ سن کر وہ انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورعرض کی یا رسول اللہ ! میرے گھر ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام قاسم رکھا ہے تو انصار کہتے ہیں ہم تیری کنیت ابوالقاسم نہیں پکاریں گے اور تیری آنکھ ٹھنڈی نہیں کریں گے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ انصار نے ٹھیک کہا ہے میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت مت رکھو ‘ کیونکہ قاسم میں ہوں ۔
تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری کی روایت لاکراس امر کو قوت دی کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا۔ تاکہ لوگ اسے ابوالقاسم کہیں مگر انصار نے اس کی مخالفت کی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی۔ اس میں راویوں نے شعبہ سے اختلاف کیا ہے۔ جیسے ابوالولید کی روایت اوپر گزری۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ انصاری نے محمد نام رکھنا چاہا تھا۔ قال الشیخ ابن الحجر بین البخاری الا ختلاف علی شعبۃ ھل اراد الانصاری ان ابنہ محمداً اوالقاسم واشار الیٰ ترجیح انہ اراد ان یسمہ القاسم بروایۃ سفیان وھوا الثوری لہ عن الاعمش فسماہ القاسم ویترجح ایضاً من حیث المعنی لانہ لم یقع الانکار من الانصار علیہ الاحیث لزم من تسمیۃ ولدہ القاسم ان یصیر بکنی اباالقاسم انتھی ( حاشیہ بخاری ) یعنی حضرت امام بخاری نے شعبہ پر اختلاف کو بیان کیا ہے جو اس بارے میں واقع ہو ا کہ انصاری قاسم رکھنا چاہتا تھا یا محمد اور اس ترجیح پر آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ قاسم نام رکھنا چاہتا تھا معنی کے لحاظ سے بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے‘ انصار کا انکار اسی وجہ سے تھا۔ کہ وہ بچے کا نام قاسم رکھ کر خواابوالقاسم کہلانا چاہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام سفیان ثوری کی روایت لاکراس امر کو قوت دی کہ انصاری نے اپنے لڑکے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا۔ تاکہ لوگ اسے ابوالقاسم کہیں مگر انصار نے اس کی مخالفت کی جس کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی۔ اس میں راویوں نے شعبہ سے اختلاف کیا ہے۔ جیسے ابوالولید کی روایت اوپر گزری۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ انصاری نے محمد نام رکھنا چاہا تھا۔ قال الشیخ ابن الحجر بین البخاری الا ختلاف علی شعبۃ ھل اراد الانصاری ان ابنہ محمداً اوالقاسم واشار الیٰ ترجیح انہ اراد ان یسمہ القاسم بروایۃ سفیان وھوا الثوری لہ عن الاعمش فسماہ القاسم ویترجح ایضاً من حیث المعنی لانہ لم یقع الانکار من الانصار علیہ الاحیث لزم من تسمیۃ ولدہ القاسم ان یصیر بکنی اباالقاسم انتھی ( حاشیہ بخاری ) یعنی حضرت امام بخاری نے شعبہ پر اختلاف کو بیان کیا ہے جو اس بارے میں واقع ہو ا کہ انصاری قاسم رکھنا چاہتا تھا یا محمد اور اس ترجیح پر آپ نے اشارہ فرمایا ہے کہ وہ قاسم نام رکھنا چاہتا تھا معنی کے لحاظ سے بھی اسی کو ترجیح حاصل ہے‘ انصار کا انکار اسی وجہ سے تھا۔ کہ وہ بچے کا نام قاسم رکھ کر خواابوالقاسم کہلانا چاہیں۔