كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ} [الأنفال: 41] صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، وَمَنْصُورٍ، وَقَتَادَةَ، سَمِعُوا سَالِمَ بْنَ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا مِنَ الأَنْصَارِ غُلاَمٌ، فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا، - قَالَ شُعْبَةُ فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ: إِنَّ الأَنْصَارِيَّ قَالَ: حَمَلْتُهُ عَلَى عُنُقِي، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي حَدِيثِ سُلَيْمَانَ، وُلِدَ لَهُ غُلاَمٌ، فَأَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ مُحَمَّدًا -، قَالَ: «سَمُّوا بِاسْمِي، وَلاَ تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي، فَإِنِّي إِنَّمَا جُعِلْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ»، وَقَالَ حُصَيْنٌ: «بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ»، قَالَ عَمْرٌو: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، عَنْ جَابِرٍ، أَرَادَ أَنْ يُسَمِّيَهُ القَاسِمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَمُّوا بِاسْمِي وَلاَ تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : سورۃ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ جو کچھ تم غنیمت میں حاصل کرو ، بے شک اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے ہے یعنی رسو ل اللہ ﷺ اس کی تقسیم کریں گے
ہم سے ابو ولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان ‘ منصور اور قتادہ نے ‘ انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے سنا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم انصاریوں کے قبیلہ میں ایک انصاری کے گھر بچہ پیدا ہو تو انہوں نے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کیا اورشعبہ نے منصور سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ ان انصاری نے بیان کیا ( جن کے یہاں بچہ پیدا ہوا تھا ) کہ میں بچے کو اپنی گردن پر اٹھا کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور سلیمان کی روایت میں ہے کہ ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا ‘ تو انہوں نے اس کا نام محمد رکھنا چاہا ‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو ‘ لیکن میری کنیت ( ابو لقاسم ) پر کنیت نہ رکھنا ‘ کیونکہ مجھے تقسیم کرنے والا ( قاسم ) بنایا گیا ہے ۔ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں ‘ اور حصین نے ( اپنی روایت میں ) یوں بیان کیا ‘ کہ مجھے تقسیم کرنے والا ( قاسم ) بنا کر بھیجا گیا ہے ‘ میں تم میں تقسیم کرتا ہوں ۔ عمرو بن مرزوق نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے سالم سے سنا انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہ ان انصاری صحابی نے اپنے بچے کا نام قاسم رکھنا چاہا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے نام پر نام رکھو لیکن کنیت پر نہ رکھو ۔
تشریح :
ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں امام ماک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ کی حیات میں یہ فعل ناجائز تھا۔ بعضوں نے اسے ممانعت تنزیہی قرار دیا ہے۔ بعضوں نے کہا محمدیا احمد ناموں کے ساتھ ابوالقاسم کنیت رکھنی منع ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح
ابو القاسم کنیت رکھنے کے بارے میں امام ماک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپ کی حیات میں یہ فعل ناجائز تھا۔ بعضوں نے اسے ممانعت تنزیہی قرار دیا ہے۔ بعضوں نے کہا محمدیا احمد ناموں کے ساتھ ابوالقاسم کنیت رکھنی منع ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے قول کو ترجیح