كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَصَاهُ، وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ صحيح قَالَ الحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُنْذِرًا الثَّوْرِيَّ، عَنْ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ، قَالَ: أَرْسَلَنِي أَبِي، خُذْ هَذَا الكِتَابَ، فَاذْهَبْ بِهِ إِلَى عُثْمَانَ، فَإِنَّ فِيهِ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان
حمیدی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے محمد بن سوقہ نے کہا کہ میں نے منذر ثوری سے سنا ‘ وہ محمد بن حنفیہ سے بیان کرتے تھے کہ میرے والد ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے مجھ کو کہا کہ یہ پروانہ عثمان رضی اللہ عنہ کو لے جا کر دے آؤ ‘ اس میں زکوٰۃ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکامات درج ہیں ۔
تشریح :
ہوا یہ تھا کہ محمد بن حنفیہ کے پاس ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہا‘ انہوں نے کہا خاموش! لوگوں نے پوچھا کیا تمہارے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کو برا کہتے تھے؟ تب محمد بن حنفیہ نے یہ قصہ بیان کیا‘ یعنی اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو برا کہنے والے ہوتے تو اس موقع پر کہتے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ آپ کا لکھوایا ہو ا پروانہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ انہوں نے اس سے کام لیا‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے زرہ اورعصاءاور بالوں کے متعلق حدیثیں بیان نہیں کیں‘ حالانکہ ترجمہ باب میں ان کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے اشارہ کیا ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی حدیثو ں کی طرف جو دوسر ے بابوں میں مذکور ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے کہ وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے کہ آپ حجراسود کو ایک لکڑی سے چومتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کتا ب الطہارت میں گزری‘ اس میں ابن سیرین کا یہ قول ہے کہ ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں اور پیالہ پر باقی برتنوں کو قیاس کرسکتے ہیں۔ حمیدی کی سند بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ سفیان کا سماع محمد بن سوقہ سے اور محمد بن سوقہ کا منذر سے بصراحت معلوم ہو جائے۔ ( حمیدی )
ہوا یہ تھا کہ محمد بن حنفیہ کے پاس ایک شخص نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہا‘ انہوں نے کہا خاموش! لوگوں نے پوچھا کیا تمہارے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عثمان کو برا کہتے تھے؟ تب محمد بن حنفیہ نے یہ قصہ بیان کیا‘ یعنی اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کو برا کہنے والے ہوتے تو اس موقع پر کہتے۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یہ ہے کہ آپ کا لکھوایا ہو ا پروانہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ انہوں نے اس سے کام لیا‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے زرہ اورعصاءاور بالوں کے متعلق حدیثیں بیان نہیں کیں‘ حالانکہ ترجمہ باب میں ان کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے اشارہ کیا ہو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی حدیثو ں کی طرف جو دوسر ے بابوں میں مذکور ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے کہ وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے کہ آپ حجراسود کو ایک لکڑی سے چومتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کتا ب الطہارت میں گزری‘ اس میں ابن سیرین کا یہ قول ہے کہ ہمارے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں اور پیالہ پر باقی برتنوں کو قیاس کرسکتے ہیں۔ حمیدی کی سند بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ سفیان کا سماع محمد بن سوقہ سے اور محمد بن سوقہ کا منذر سے بصراحت معلوم ہو جائے۔ ( حمیدی )