‌صحيح البخاري - حدیث 3109

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ مَا ذُكِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَصَاهُ، وَسَيْفِهِ وَقَدَحِهِ، وَخَاتَمِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ» قَالَ عَاصِمٌ: رَأَيْتُ القَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3109

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : نبی کریم ﷺ کی زرہ‘ عصاء مبارک ‘ آپ ﷺ کی تلوار ‘ پیالہ اورانگوٹھی کا بیان ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ ان سے ابو حمزہ نے ‘ ان سے عاصم نے ‘ ان سے ابن سیرین نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پانی پینے کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ نے ٹوٹی ہوئی جگہوں کو چاندی کی زنجیروں سے جوڑ والیا ۔ عاصم کہتے ہیں کہ میں نے وہ پیالہ دیکھا ہے ۔ اور اس میں میں نے پانی بھی پیا ہے ۔
تشریح : مقصد حضرت اما م کا یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ تقسیم کیا جاتا تو وہ پیالہ تقسیم ہوتا‘ حالانکہ وہ تقسیم نہیں ہوا۔ بلکہ خلفاءاسے یوں ہی بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے چلے آئے۔ اس طرح پچھلی احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے جوتوں کا ذکر ہے اور حدیث عائشہ میں آپ کی کملی اور تہبند کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترک فرموداہ اشیاءمیں سے کوئی چیز تقسیم نہیں کی گئی۔ مقصد حضرت اما م کا یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ تقسیم کیا جاتا تو وہ پیالہ تقسیم ہوتا‘ حالانکہ وہ تقسیم نہیں ہوا۔ بلکہ خلفاءاسے یوں ہی بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے چلے آئے۔ اس طرح پچھلی احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے جوتوں کا ذکر ہے اور حدیث عائشہ میں آپ کی کملی اور تہبند کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترک فرموداہ اشیاءمیں سے کوئی چیز تقسیم نہیں کی گئی۔