كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ، أَنَّ صَفِيَّةَ - زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ، وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فِي المَسْجِدِ، فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ثُمَّ قَامَتْ تَنْقَلِبُ، فَقَامَ مَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَ قَرِيبًا مِنْ بَابِ المَسْجِدِ، عِنْدَ بَابِ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِهِمَا رَجُلاَنِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَسَلَّمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَفَذَا، فَقَالَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلَى رِسْلِكُمَا»، قَالاَ: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ، اللَّهِ وَكَبُرَ عَلَيْهِمَا ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنَ الإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا»
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : رسو ل کریم ﷺ کی بیویوں کے گھروں کا ان کی طرف منسوب کرنا
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے حضرت علی بن حسین زین العابدین نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرات حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملنے کے لئے حاضر ہوئیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا مسجد میں اعتکاف کئے ہوئے تھے ۔ پھر وہ واپس ہونے کے لئے اٹھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ اٹھے ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے قریب پہنچے جو مسجد نبوی کے دروازے سے ملا ہوا تھا تو دو انصاری صحابی ( اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور عباد بن بشر رضی اللہ عنہ ) وہاں سے گزرے ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے سلام کیا اور آگے بڑھنے لگے ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ‘ ذرا ٹھہر جاؤ ( میرے ساتھ میری بیوی صفیہ رضی اللہ عنہ ہیں یعنی کوئی دوسرا نہیں ) ان دونوں نے عرض کیا ۔ سبحان اللہ ‘ یا رسو ل اللہ ! ان حضرات پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا رہتا ہے جیسے جسم میں خون دوڑتا ہے ۔ مجھے یہی خطرہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو جائے ۔
تشریح :
ان اصحاب کرام پر شاق اس لئے گزرا کیونکہ وہ دونوں سچے مومن تھے‘ ان کو یہ رنج ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نسبت یہ خیال فرمایا کہ ہم آپ پر بدگمانی کریں گے۔ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ایمان بچالیا‘ پیغمبروں کی نسبت ایک ذرا سی بد گمانی کرنا بھی کفر اور باعث زوال ایمان ہے‘ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ کا دروازہ کہا۔
ان اصحاب کرام پر شاق اس لئے گزرا کیونکہ وہ دونوں سچے مومن تھے‘ ان کو یہ رنج ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نسبت یہ خیال فرمایا کہ ہم آپ پر بدگمانی کریں گے۔ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ایمان بچالیا‘ پیغمبروں کی نسبت ایک ذرا سی بد گمانی کرنا بھی کفر اور باعث زوال ایمان ہے‘ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ کا دروازہ کہا۔