كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بابُ فَرْضِ الخُمُسِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الفَرْوِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الحَدَثَانِ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ، - ذَكَرَ لِي ذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الحَدِيثِ، فَقَالَ مَالِكٌ - بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ، إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ يَأْتِينِي، فَقَالَ: أَجِبْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى رِمَالِ سَرِيرٍ، لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ، مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ: يَا مَالِ، إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِكَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي، قَالَ: اقْبِضْهُ أَيُّهَا المَرْءُ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا، فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا، ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَدَخَلاَ، فَسَلَّمَا فَجَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ [ص:80]: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الرَّهْطُ، عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا، وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الآخَرِ، قَالَ عُمَرُ: تَيْدَكُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ؟ قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ: ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ؟ قَالاَ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، ثُمَّ قَرَأَ: {وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ} [الحشر: 6]- إِلَى قَوْلِهِ - {قَدِيرٌ} [الحشر: 6]، فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلاَ اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، قَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا المَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا المَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَ عُمَرُ: ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ: إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، فَكُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَكْرٍ، فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي، أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ: إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُكَلِّمَانِي، وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ، وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ، تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، وَجَاءَنِي هَذَا - يُرِيدُ عَلِيًّا - يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ لَكُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ: لَتَعْمَلاَنِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَبِذَلِكَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟ قَالَ الرَّهْطُ: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى [ص:81] عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ؟ قَالاَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ، لاَ أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ، فَإِنِّي أَكْفِيكُمَاهَا
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
باب : خمس کے فرض ہونے کا بیان
ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حد ثان نے ( زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر نے مجھ سے (اسی آنے والی) حدیث کا ذکر کیا تھا ۔ اس لئے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق ( بطور تصدیق ) پوچھا ۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیر المومنین آپ کو بلا رہے ہیں ۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا ۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک ! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لئے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیر المومنین ! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو ۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمومنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اند ر آنے کی اجازت چاہتے ہیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلالو ۔ آپ کی اجازت پریہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے ۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہ کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلالو ۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے ۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمومنین ! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئے ۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے اموال میں سے ( خمس کے طور پر ) عنایت فرمائی تھی ۔ اس پر حضرت عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین ! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئے اور ہرایک کو دوسرے کی طرف سے بے فکر کر دیجئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہر ئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں ۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ” ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم ( انبیائ ) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ‘ ‘ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی ۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا ۔ اب حضرت عمرص علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا ۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک ایسا فرمایا ہے ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا ۔ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ﴾ماافاءاﷲ علی رسولہ منھم ﴿سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد قدیر تک اور وہ حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص رہا ۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائداد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لئے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں ۔ یہ جو جائداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے ( جہاد کے سامان فراہم کرنے میں ) خیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے ۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم ! کیا تم یہ نہیں جانتے ؟ انہوں نے کہا بے شک جانتے ہیں ۔ پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہ سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں ؟ ( دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں ! ) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لئے انہوں نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخلص ) جائداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکو کا ر اورحق کی پیروی کرنے والے تھے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلالیا اوراب میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا ۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں ۔ اور میں نے بھی اس جائداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے ۔ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا ۔ جناب عباس ! آپ تو اس لئے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا ۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لئے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث انہیں ملنی چاہئے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائداد وں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اورجو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا ۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائدادیں ہم کو دے دو ۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائداد یں اسی شرط پران کے حوالے کی ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے کہا ‘ بے شک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اورعباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے کہا بیشک ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو ؟ ( کیا جائداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو ) قسم اللہ کی ! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ۔ ہاں ! یہ اوربات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہو سکتا تو پھرجائداد میرے سپرد کردو ۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا ۔
تشریح :
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جائداد کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میںدے دیا تھا۔ پھر بھی یہ حضرات یہ مقدمہ عدالت فاروقی میں لائے ‘ تو آپ نے یہ توضیحی بیان دیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اس طویل روایت میں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی ناراضگی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مسئلہ پر نہیں ہوئی تھی کیونکہ یہ سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نفی پہلے ہی کردی تھی کہ انبیاءکی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اورتمام صحابہ نے اسے مان بھی لیا تھا۔ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی کسی موقعہ پر اس کی نفی منقول نہیں۔ بلکہ نزاع صرف اس مال کے انتظام و انصرام کے معاملہ پر ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انتظام اہل بیت رضوان اللہ علیہم کے ہاتھ میں دے بھی دیا تھا۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کرلیا تھا اور اپنی وفات تک ناراض رہی تھیں۔ مشہور روایات میں اسی طرح ہے لیکن بعض روایات سے یہ ثابت ہے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں پہنچے اور اس وقت تک نہیں اٹھے جب تک راضی نہیں ہوگئیں۔ معتبر مصنفین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کی زندگی خصوصاًحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے یہی طرز عمل زیادہ جوڑ بھی کھاتا ہے۔ ( تفہیم البخاری )
یہاں کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بنا پر یہ جائداد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے نہیں کی ‘ حالانکہ وہ ناراض بھی ہوئیں تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث کے خلاف کیوں کیا اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے طریق کو کیوں موقوف کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جائداد کو تقسیم نہیں کیا‘ بلکہ اس کا انتظام کرنے والا حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بنا دیا۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت کے کام بہت ہوگئے تھے‘ان جائدادوں کی نگرانی کی فرصت بھی نہ تھی۔ دوسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ کوخوش کردینا بھی منظور تھا اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ سے تقسیم کی درخواست کی تھی جو حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منظور نہ کی۔
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جائداد کا انتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میںدے دیا تھا۔ پھر بھی یہ حضرات یہ مقدمہ عدالت فاروقی میں لائے ‘ تو آپ نے یہ توضیحی بیان دیا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
اس طویل روایت میں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی ناراضگی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مسئلہ پر نہیں ہوئی تھی کیونکہ یہ سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نفی پہلے ہی کردی تھی کہ انبیاءکی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اورتمام صحابہ نے اسے مان بھی لیا تھا۔ خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ ‘ یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بھی کسی موقعہ پر اس کی نفی منقول نہیں۔ بلکہ نزاع صرف اس مال کے انتظام و انصرام کے معاملہ پر ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا انتظام اہل بیت رضوان اللہ علیہم کے ہاتھ میں دے بھی دیا تھا۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کرلیا تھا اور اپنی وفات تک ناراض رہی تھیں۔ مشہور روایات میں اسی طرح ہے لیکن بعض روایات سے یہ ثابت ہے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کی خدمت میں پہنچے اور اس وقت تک نہیں اٹھے جب تک راضی نہیں ہوگئیں۔ معتبر مصنفین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کی زندگی خصوصاًحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے یہی طرز عمل زیادہ جوڑ بھی کھاتا ہے۔ ( تفہیم البخاری )
یہاں کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اس حدیث کی بنا پر یہ جائداد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے حوالے نہیں کی ‘ حالانکہ وہ ناراض بھی ہوئیں تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث کے خلاف کیوں کیا اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے طریق کو کیوں موقوف کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس جائداد کو تقسیم نہیں کیا‘ بلکہ اس کا انتظام کرنے والا حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بنا دیا۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت کے کام بہت ہوگئے تھے‘ان جائدادوں کی نگرانی کی فرصت بھی نہ تھی۔ دوسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ و عباس رضی اللہ عنہ کوخوش کردینا بھی منظور تھا اورحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ سے تقسیم کی درخواست کی تھی جو حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منظور نہ کی۔