‌صحيح البخاري - حدیث 3091

كِتَابُ فَرْضِ الخُمُسِ بابُ فَرْضِ الخُمُسِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ الحُسَيْنِ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيًّا قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ المَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الخُمُسِ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْتَنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِيَ، فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ الصَّوَّاغِينَ، وَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجْمَعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ، وَالغَرَائِرِ، وَالحِبَالِ، وَشَارِفَايَ مُنَاخَتَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ، رَجَعْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ، فَإِذَا شَارِفَايَ قَدْ اجْتُبَّ أَسْنِمَتُهُمَا، وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ المَنْظَرَ مِنْهُمَا، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا؟ فَقَالُوا: فَعَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا البَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، فَعَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِي الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لَكَ؟»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا رَأَيْتُ كَاليَوْمِ قَطُّ، عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ، فَأَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا، وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ، فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ، فَارْتَدَى، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ البَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ، فَاسْتَأْذَنَ، فَأَذِنُوا لَهُمْ، فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ، «فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ»، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ، مُحْمَرَّةً عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ، ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ، فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي؟ فَعَرَفَ [ص:79] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ القَهْقَرَى، وَخَرَجْنَا مَعَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3091

کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان باب : خمس کے فرض ہونے کا بیان ہم سے عبدان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی اور انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ جنگ بدر کے مال غنیمت سے میرے حصے میں ایک جوان اونٹنی آئی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک جوان اونٹنی خمس کے مال میں سے دی تھی ‘ جب میرا ارادہ ہوا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کروں ‘ تو بنی قینقاع ( قبیلہ یہود ) کے ایک صاحب سے جو سنار تھے ‘ میں نے یہ طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں اذخرگھاس ( جنگل سے ) لائیں ۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ میں وہ گھاس سناروں کو بیچ دوں گا اور اس کی قیمت سے اپنے نکاح کا ولیمہ کروں گا ۔ ابھی میں ان دونوں اونٹنیوں کا سامان ‘ پالان اور تھیلے اور رسیاں جمع کر رہا تھا ۔ اور یہ دونوں اونٹنیاں ایک انصاری صحابی کے گھر کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جب ساراسامان فراہم کر کے واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری دونوں اونٹنیوں کے کوہان کسی نے کاٹ دیئے ہیں ۔ اور انکے پیٹ چیر کر اندر سے کلیجی نکال لی گئی ہیں ۔ جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں بے اختیار رو دیا ۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب کچھ کس نے کیا ہے ؟ تو لوگوں نے بتایا کہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے اور وہ اسی گھر میں کچھ انصار کے ساتھ شراب پی رہے ہیں ۔ میں وہاں سے واپس آ گیا اور سیدھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ کی خدمت میں اس وقت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ میں کسی بڑے صدمے میں ہوں ۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ‘ علی ! کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے آج کے دن جیسا صدمہ کبھی نہیں دیکھا ۔ حمزہ ( رضی اللہ عنہ ) نے میری دونوں اونٹنیوں پر ظلم کردیا ۔ دونوں کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کے پیٹ چیر ڈالے ۔ ابھی وہ اسی گھر میں کئی یاروں کے ساتھ شراب کی مجلس جمائے ہوئے موجود ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر اپنی چادرمانگی اور اسے اوڑھ کر پیدل چلنے لگے ۔ میں اور زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہوئے ۔ آخر جب وہ گھر آگیا جس میں حمزہ رضی اللہ عنہ موجود تھے تو آپ نے اندر آنے کی اجازت چاہی اور اندر موجود لوگوں نے آپ کو اجازت دے دی ۔ وہ لوگ شراب پی رہے تھے ۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کیا تھا ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ ملامت کرنا شروع کی ۔ حمزہ رضی اللہ عنہ کی آنکھیں شراب کے نشے میں مخمور اور سرخ ہو رہی تھیں ۔ انہوں نے نظر اٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ پھر نظر ذرا اور اوپر اٹھائی ‘ پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں پر نظر لے گئے اس کے بعد نگاہ اور اٹھا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کے قریب دیکھنے لگے ۔ پھر چہرے پر جمادی ۔ پھر کہنے لگے کہ تم سب میر ے باپ کے غلام ہو ، یہ حال دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب محسوس کیا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ بالکل نشے میں ہیں ، تو آپ وہیں سے الٹے پاؤں واپس آ گئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے ۔
تشریح : اس طویل حدیث کو حضرت امام یہاں اس لئے لائے کہ اس میں اموال غنیمت کے خمس میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جوان اونٹنی ملنے کا ذکر ہے۔ یہ اونٹنی اس مال میں سے تھی جو عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی ماتحت فوج نے حاصل کیا تھا۔ یہ جنگ بدر سے دومہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت تک خمس کاحکم نہیں اتراتھا۔ لیکن عبداللہ بن جحش نے چار حصے تو فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ اپنی رائے سے آنحضرت کے لئے رکھ چھوڑا۔ پھر قرآن شریف میں بھی ایسا ہی حکم نازل ہوا۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک گانے والی بھی تھی جس نے گانے کے دوران ان جوان اونٹنیوں کے کلیجے سے کباب بنانے اورکھانے کی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ترغیب دلائی اور اس پر وہ نشے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور ان اونٹنیوں کو کاٹ کر ان کے کلیجے نکال لئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صدمہ بھی بجا تھا اور پاس ادب بھی ضروری‘ اس لئے وہ غصہ کو پی کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقدمہ کے حالات کا معائنہ فرمانے کے لئے خود تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس وقت نشہ میں چور تھے۔ شراب اسوقت تک حرام نہیں ہوئی تھی‘ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے منہ سے بے ادبی کے الفاظ نکل گئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کے ہوش میں آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان اونٹنیوں کا تاوان دلایا۔ اس طویل حدیث کو حضرت امام یہاں اس لئے لائے کہ اس میں اموال غنیمت کے خمس میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جوان اونٹنی ملنے کا ذکر ہے۔ یہ اونٹنی اس مال میں سے تھی جو عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی ماتحت فوج نے حاصل کیا تھا۔ یہ جنگ بدر سے دومہینے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت تک خمس کاحکم نہیں اتراتھا۔ لیکن عبداللہ بن جحش نے چار حصے تو فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ اپنی رائے سے آنحضرت کے لئے رکھ چھوڑا۔ پھر قرآن شریف میں بھی ایسا ہی حکم نازل ہوا۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک گانے والی بھی تھی جس نے گانے کے دوران ان جوان اونٹنیوں کے کلیجے سے کباب بنانے اورکھانے کی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو ترغیب دلائی اور اس پر وہ نشے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور ان اونٹنیوں کو کاٹ کر ان کے کلیجے نکال لئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا صدمہ بھی بجا تھا اور پاس ادب بھی ضروری‘ اس لئے وہ غصہ کو پی کر دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقدمہ کے حالات کا معائنہ فرمانے کے لئے خود تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس وقت نشہ میں چور تھے۔ شراب اسوقت تک حرام نہیں ہوئی تھی‘ نشہ کی حالت میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے منہ سے بے ادبی کے الفاظ نکل گئے۔ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ حضرت حمزہ کے ہوش میں آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان اونٹنیوں کا تاوان دلایا۔