كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ الطَّعَامِ عِنْدَ القُدُومِ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، نَحَرَ جَزُورًا أَوْ بَقَرَةً»، زَادَ مُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَارِبٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ «اشْتَرَى مِنِّي النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم بَعِيرًا بِوَقِيَّتَيْنِ وَدِرْهَمٍ أَوْ دِرْهَمَيْنِ، فَلَمَّا قَدِمَ صِرَارًا أَمَرَ بِبَقَرَةٍ، فَذُبِحَتْ فَأَكَلُوا مِنْهَا، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ أَمَرَنِي أَنْ آتِيَ المَسْجِدَ، فَأُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَوَزَنَ لِي ثَمَنَ البَعِيرِ»
کتاب: جہاد کا بیان
باب : مسافر جب سفر سے لوٹ کر آئے تو لوگوں کو کھانا کھلائے (دعوت کرے)
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو وکیع نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے ‘ انہیں محارب بن دثار نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے ( غزوہ تبوک یا ذات الرقاع سے ) تو اونٹ یا گائے ذبح کی ( راوی کو شبہ ہے ) معاذ عنبری نے ( اپنی روایت میں ) کچھ زیادتی کے ساتھ کہا ۔ ان سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے محارب بن دثار نے ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا تھا ۔ دواوقیہ اور ایک درہم یا ( راوی کو شبہ ہے کہ دواوقیہ ) دو درہم میں ۔ جب آپ مقام صرار پر پہنچے تو آپ نے حکم دیا اورگائے ذبح کی گئی اور لوگوں نے اس کا گوشت کھایا ۔ پھر جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو مجھے حکم دیا کہ پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھوں ‘ اس کے بعد مجھے میرے اونٹ کی قیمت وزن کر کے عنایت فرمائی ۔
تشریح :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے نہ فرض نہ نفل‘ جب گھر پر ہوتے تو بکثرت روزے رکھا کرتے‘ اگرچہ ان کی عادت حالت اقامت میں بکثرت روزے رکھنے کی تھی‘ لیکن جب آپ سفر سے واپس آتے تو دو ایک دن اس خیال سے روزہ نہیں رکھتے تھے کہ ملاقات کے لئے لوگ آئیں گے اور ان کی ضیافت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ میزبان مہمان کے ساتھ کھائے‘ اس لئے آپ ایسے موقع پر نفل روزہ چھوڑ دیتے تھے۔
آپ تہجد ہمیشہ پڑھا کرتے‘ سنت نبوی سے بال برابر بھی تجاوز نہ کرتے‘ بدعت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ایک دفعہ ایک مسجد میں گئے‘ وہاں کسی نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ پکارا‘ تو آپ یہ کہہ کر کھڑے ہو گئے‘ کہ اس بدعتی کی مسجد سے نکل چلو۔
معاذ کی سند بیان کرنے سے حضرت امام رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ محارب کا سماع جابر سے ثابت ہو جائے۔ معاذ کی اس روایت کو امام مسلم نے وصل کیا ہے۔ اس روایت کو امام بخاری نے کئی جگہ بیان فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔ تعجب ہے کہ ایسے فقہ اہلحدیث کے ماہر مجتہد مطلق امام کو بعض کو رباطن متعصّب مجتہد نہیں مانتے‘ جو خود ان کی کور باطنی کا ثبوت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں روزہ نہیں رکھتے تھے نہ فرض نہ نفل‘ جب گھر پر ہوتے تو بکثرت روزے رکھا کرتے‘ اگرچہ ان کی عادت حالت اقامت میں بکثرت روزے رکھنے کی تھی‘ لیکن جب آپ سفر سے واپس آتے تو دو ایک دن اس خیال سے روزہ نہیں رکھتے تھے کہ ملاقات کے لئے لوگ آئیں گے اور ان کی ضیافت ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ میزبان مہمان کے ساتھ کھائے‘ اس لئے آپ ایسے موقع پر نفل روزہ چھوڑ دیتے تھے۔
آپ تہجد ہمیشہ پڑھا کرتے‘ سنت نبوی سے بال برابر بھی تجاوز نہ کرتے‘ بدعت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ایک دفعہ ایک مسجد میں گئے‘ وہاں کسی نے الصلوٰۃ الصلوٰۃ پکارا‘ تو آپ یہ کہہ کر کھڑے ہو گئے‘ کہ اس بدعتی کی مسجد سے نکل چلو۔
معاذ کی سند بیان کرنے سے حضرت امام رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ محارب کا سماع جابر سے ثابت ہو جائے۔ معاذ کی اس روایت کو امام مسلم نے وصل کیا ہے۔ اس روایت کو امام بخاری نے کئی جگہ بیان فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔ تعجب ہے کہ ایسے فقہ اہلحدیث کے ماہر مجتہد مطلق امام کو بعض کو رباطن متعصّب مجتہد نہیں مانتے‘ جو خود ان کی کور باطنی کا ثبوت ہے۔