‌صحيح البخاري - حدیث 3082

كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ اسْتِقْبَالِ الغُزَاةِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، وَحُمَيْدُ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: ابْنُ الزُّبَيْرِ لِابْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، أَتَذْكُرُ إِذْ تَلَقَّيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَنْتَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: «نَعَمْ فَحَمَلَنَا وَتَرَكَكَ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 3082

کتاب: جہاد کا بیان باب : غازیوں کے استقبال کو جانا (جب وہ جہاد سے لوٹ کر آئیں) ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یزید بن زریع اور حمید بن الاسود نے بیان کیا ‘ ان سے حبیب بن شہید نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا ‘ تمہیں وہ قصہ یاد ہے جب میں اور تم اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تینوں آگے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس آرہے تھے ) عبداللہ بن جعفر نے کہا ‘ ہاں یاد ہے ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ کرلیا تھا ‘ اور تمہیں چھوڑ دیاتھا ۔
تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ظاہرہ ان القائل فحملنا ہو عبداللہ بن جعفر وان المتروک ہو ابن الزبیر الخ یعنی ظاہر ہے کہ سوار ہونے والے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ہیں اور متروک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہیں۔ مگر مسلم میں اس کے برعکس مذکور ہے۔ وقد نبہ عیاض علی ان الذی وقع فی البخاری ہو الصواب یعنی قاضی عیاض نے تنبیہ کی ہے کہ بخاری کا بیان زیادہ صحیح ہے۔ اس سے غازیوں کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا ثابت ہوا۔ نیز اس سے یتیموں کا زیادہ خیال رکھنا بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ حضرت عبداللہ کے والد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انتقال کر چکے تھے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے یتیم بچے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا دل خوش کرنے کے لئے سواری پر ان کومقدم کیا‘ اگر کسی صحابی پر آنحضرتﷺ نے کبھی کسی امر میں نظر عنایت فرمائی تو اس پر اس صحابی کے فخر کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا‘ کسی بزرگ کی طرف سے کسی پر نظر عنایت ہو تو وہ آج بھی بطور فخر اسے بیان کر سکتے ہیں۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ ظاہرہ ان القائل فحملنا ہو عبداللہ بن جعفر وان المتروک ہو ابن الزبیر الخ یعنی ظاہر ہے کہ سوار ہونے والے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ہیں اور متروک حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ہیں۔ مگر مسلم میں اس کے برعکس مذکور ہے۔ وقد نبہ عیاض علی ان الذی وقع فی البخاری ہو الصواب یعنی قاضی عیاض نے تنبیہ کی ہے کہ بخاری کا بیان زیادہ صحیح ہے۔ اس سے غازیوں کا آگے بڑھ کر استقبال کرنا ثابت ہوا۔ نیز اس سے یتیموں کا زیادہ خیال رکھنا بھی ثابت ہوا۔ کیونکہ حضرت عبداللہ کے والد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انتقال کر چکے تھے۔ آنحضرتﷺ نے ان کے یتیم بچے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا دل خوش کرنے کے لئے سواری پر ان کومقدم کیا‘ اگر کسی صحابی پر آنحضرتﷺ نے کبھی کسی امر میں نظر عنایت فرمائی تو اس پر اس صحابی کے فخر کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا‘ کسی بزرگ کی طرف سے کسی پر نظر عنایت ہو تو وہ آج بھی بطور فخر اسے بیان کر سکتے ہیں۔