كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابُ إِذَا اضْطَرَّ الرَّجُلُ إِلَى النَّظَرِ فِي شُعُورِ أَهْلِ الذِّمَّةِ، وَالمُؤْمِنَاتِ إِذَا عَصَيْنَ اللَّهَ، وَتَجْرِيدِهِنَّ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ الطَّائِفِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، - وَكَانَ عُثْمَانِيًّا فَقَالَ لِابْنِ عَطِيَّةَ: وَكَانَ عَلَوِيًّا - إِنِّي لَأَعْلَمُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالزُّبَيْرَ، فَقَالَ: «ائْتُوا رَوْضَةَ كَذَا، وَتَجِدُونَ بِهَا امْرَأَةً، أَعْطَاهَا حَاطِبٌ كِتَابًا»، فَأَتَيْنَا الرَّوْضَةَ: فَقُلْنَا: الكِتَابَ، قَالَتْ: لَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ، فَأَخْرَجَتْ مِنْ حُجْزَتِهَا، فَأَرْسَلَ إِلَى حَاطِبٍ، فَقَالَ: لاَ تَعْجَلْ، وَاللَّهِ مَا كَفَرْتُ وَلاَ ازْدَدْتُ لِلْإِسْلاَمِ إِلَّا حُبًّا، وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا وَلَهُ بِمَكَّةَ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لِي أَحَدٌ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَّخِذَ عِنْدَهُمْ يَدًا، فَصَدَّقَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَهُ فَإِنَّهُ قَدْ نَافَقَ، فَقَالَ: مَا يُدْرِيكَ، لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ، فَهَذَا الَّذِي جَرَّأَهُ
کتاب: جہاد کا بیان
باب : ذمی یا مسلمان عورتوں کے ضرورت کے وقت بال دیکھنا درست ہے اس طرح ان کا ننگا کرنا بھی جب وہ اللہ کی نافرمانی کریں
مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب الطائفی نے بیان کیا ‘ ان سے ہشیم نے بیان کیا ‘ انہیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن عبیدہ نے اور انہیں ابی عبدالرحمن نے اور وہ عثمانی تھے ‘ انہوں نے عطیہ سے کہا ‘ جو علوی تھے ‘ کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارے صاحب ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کو کس چیز سے خون بہانے پر جرات ہوئی ‘ میں نے خود ان سے سنا ‘ وہ بیان کرتے تھے کہ مجھے اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ۔ اور ہدایت فرمائی کہ روضہ خاخ پر جب تم پہنچو ‘ تو انہیں ایک عورت ( سارہ نامی ) ملے گی ۔ جسے حاطب ابن بلتعہ رضی اللہ عنہ نے ایک خط دے کر بھیجا ہے ( تم وہ خط اس سے لے کر آؤ ) چنانچہ جب ہم اس باغ تک پہنچے ہم نے اس عورت سے کہا خط لا ۔ اس نے کہا کہ حاطب رضی اللہ عنہ نے مجھے کوئی خط نہیں دیا ۔ ہم سے اس کہا کہ خط خو د بخود نکال کردے دے ورنہ ( تلاشی کے لئے ) تمہارے کپڑے اتار لئے جائیں گے ۔ تب کہیں اس نے خط اپنے نیفے میں سے نکال کر دیا ۔ ( جب ہم نے وہ خط رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا ‘ تو ) آپ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا انہوں نے ( حاضر ہوکر ) عرض کیا ۔ حضور ! میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں ! اللہ کی قسم ! میں نے نہ کفر کیا ہے اور نہ میں اسلام سے ہٹا ہوں ‘ صرف اپنے خاندان کی محبت نے اس پر مجبور کیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ( مہاجرین ) میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے رشتہ دار وغیرہ مکہ میں نہ ہوں ۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان والوں اور ان کی جائداد کی حفاظت نہ کراتا ہو ۔ لیکن میرا وہاں کوئی بھی آدمی نہیں ‘ اس لئے میں نے چاہا کہ ان مکہ والوں پر ایک احسان کر دوں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی بات کی تصدیق فرماءی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے مجھے اس کا سر اتارنے دیجءے یہ تو منافق ہوگیا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیا معلوم! اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات سے خوب واقف تھا اور وہ خود اہل بدر کے بارے میں فرما چکا ہے کہ جو چاہو کرو ۔ ابوعبدالرحمن نے کہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اسی ارشاد نے (کہ تم جو چاہو کرو، خون ریزی پر) دلیر بنا دیا ہے۔
تشریح :
: ابو عبدالرحمن کا کلام مبالغہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدا ترسی اور پرہیزگاری سے بعید ہے کہ وہ خون ناحق کریں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ضرورت کے وقت عورت کی تلاشی لینا‘ اس کا برہنہ کرنا درست ہے۔ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی میں سے نکال کر دیا۔ اس پر حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ والجمع بینہ وبین روایۃ اخرجتہ من حجزتہا ای مقعد الاذار لان عقیصتہا طویلۃ بحیث تصل الی حجزتہا فربطتہ فی عقیصتہا وغزرتہ بحجزتہا (الخ) یعنی ہر دو روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اس عورت کے سر کی چوٹی اتنی لمبی تھی کہ وہ ازار بند باندھنے کی جگہ تک لٹکی ہوئی تھی‘ اس عورت نے اس کو چٹیا کے اندر گوندھ کر نیچے مقعد کے پاس ازار میں ٹانک لیا تھا۔ چنانچہ اس جگہ سے نکال کر دیا۔ راویوں نے جیسا دیکھا بیان کر دیا۔
سلف امت میں جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے انہیں عثمانی کہتے اور جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے انہیں علوی کہتے تھے۔ یہ اصطلاح ایک زمانہ تک رہی‘ پھر ختم ہو گئی۔ اہل سنت میں یہ عقیدہ قرار پایا کہ کسی صحابی کو کسی پر فوقیت نہیں دینا چاہئے۔ وہ سب عنداللہ مقبول ہیں‘ ان میں فاضل کون ہے اور مفضول کون‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یوں خلفائے اربعہ کو حسب ترتیب خلافت اور صحابہ پر فوقیت حاصل ہے‘ پھر عشرہ مبشرہ کو رضی اللہ عنہم اجمعین۔
: ابو عبدالرحمن کا کلام مبالغہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدا ترسی اور پرہیزگاری سے بعید ہے کہ وہ خون ناحق کریں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ضرورت کے وقت عورت کی تلاشی لینا‘ اس کا برہنہ کرنا درست ہے۔ بعض روایتوں میں یہ ہے کہ اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی میں سے نکال کر دیا۔ اس پر حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ والجمع بینہ وبین روایۃ اخرجتہ من حجزتہا ای مقعد الاذار لان عقیصتہا طویلۃ بحیث تصل الی حجزتہا فربطتہ فی عقیصتہا وغزرتہ بحجزتہا (الخ) یعنی ہر دو روایتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اس عورت کے سر کی چوٹی اتنی لمبی تھی کہ وہ ازار بند باندھنے کی جگہ تک لٹکی ہوئی تھی‘ اس عورت نے اس کو چٹیا کے اندر گوندھ کر نیچے مقعد کے پاس ازار میں ٹانک لیا تھا۔ چنانچہ اس جگہ سے نکال کر دیا۔ راویوں نے جیسا دیکھا بیان کر دیا۔
سلف امت میں جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے انہیں عثمانی کہتے اور جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے انہیں علوی کہتے تھے۔ یہ اصطلاح ایک زمانہ تک رہی‘ پھر ختم ہو گئی۔ اہل سنت میں یہ عقیدہ قرار پایا کہ کسی صحابی کو کسی پر فوقیت نہیں دینا چاہئے۔ وہ سب عنداللہ مقبول ہیں‘ ان میں فاضل کون ہے اور مفضول کون‘ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یوں خلفائے اربعہ کو حسب ترتیب خلافت اور صحابہ پر فوقیت حاصل ہے‘ پھر عشرہ مبشرہ کو رضی اللہ عنہم اجمعین۔